Sunday 25 January 2015

تمھیں خبر یے؟

نومبر کی یخ بستہ شام میں گرم اونی شال لپیٹے، گھٹنوں تک کمبل اوڑھے برآمدے میں راکنگ چیئر پہ بیٹھی کتاب پڑھتی یہ ملائم سی جلد والی ، جس کے چہرے پہ تازگی اور مسکان میں شگفتگی ہے ۔ ۔ ۔ تم ہو
!!
تم جو اپنی سنہری آنکھوں پہ چشمہ لگائے ، لس دقیق سی کتاب میں نجانے کون سے زمانے کے افسانے پڑھتی ہو ، کن گمشدہ رازوں کو کریدتی ہو۔ تم جو بے دھیانی میں اپنی الجھی ہوئی لٹوں کو انگلیوں کے گرد لپیٹتی ہو اور کبھی اپنی بھنووں کو ترچھا تو کبھی سکیڑ لیتی ہو۔۔ تمھہں خبر ہے کہ تم کیا کرتی ہو؟
سردی سے لال ہوتی تمھاری یہ ناک ۔ ۔ تمھارا دھواں اڑاتا کافی کا مگ، جس کی خوشبو چرا کے ہوا چاروں دشاوں تک لے جا رہی ہے۔ تمھیں خبر ہے کہ تمھارے وجود کی مہک کہاں کہاں گل کھلا رہی ہے؟
جھیل کنارے بیٹھا کوئی چرواہا تمھاری ہنسی کو رباب کی دھن میں ڈھالتا ہو گا تو ایک زمانہ محو رقص ہوتا ہو گا۔۔ تمھارے وجود کی چاندنی سے اندھیری رات میں بھٹکتے جگنو رستہ تلاش کرتے ہوں گے۔ ۔  مگر تم کیا جانو۔ ۔ یہ پیراہن ہوا کے ہاتھ آسمان کے لیے کیسے کیسے رنگ بھیجتا ہے۔ ۔ آسمان تشکراْ تمارے رخساروں پہ کیسی لالی اتارتا ہے ۔ ۔ تمیں کیا خبر اہل دل کس بے بسی سے تمہیں دیکھتے اور تمہاری نظر اتارتے ہیں۔
اور میں، میں جو کینوس پہ بارہا تمھاری تصویر بناتا ہوں کہ شاید میرا ہنر تمھارے حسن سے انصاف کر پائے ۔ ۔
کاش کہ تمہیں خبر ہو، اس سے پہلے کہ وقت کی خزاں روپہلے سپنوں کی بہار پہ چھا جائے اور اس سے پہلے کہ انتظار کی حد زندگی کی مہلت سے بڑھ جائے۔ ۔ کاش کہ تمہیں خبر ہو۔ ۔ ۔