اکثر بے تحاشا مصروف دن کے کسی بے نام لمحے میں ، اک پل کو تمھارا خیال مجھے چونکا دیتا ہے
تم کتنی ماہر تھی
پھولوں سے شبنم موتیوں کی مانند چن کر جملوں میں پرو دینے میں
غم کو ہنسی کی رنگین چادر پہنا کر دلربا بنا دینے میں
تمھارے بے سر اور بے تال کے راگ اور موسیقی کی دھن سے ذرا پرے پڑتے پیر
زندگی کی الجھی ڈور کو راہ پہ لا کھڑا کر دیتے تھے
"چھوٹی خوشیاں بڑے غموں کو کھا جاتی ہیں"
یہ کہہ کر تم زندگی کے پھیکے کینوس میں رنگ بھرتی تھی
مجھے تم سے محبت ہونے لگی تھی ۔۔ شاید
شاید، یقیناً نہیں
یقیناً ہوتی تو مجھے معلوم ہوتا کہ تم کہاں ہو ۔۔
تم کہاں ہو؟
مجھے تم یاد اتی ہو۔۔