Thursday 20 September 2012

توہین ِرسالت۔۔


انگریزوں نے ایک فلم بنا کر تمام امت کے جذبات کو مجروح کیا۔ اس سلسلے میں ۵۶ مسلم ممالک میں شدید احتجاج ہوا اور ہو رہا ہے۔ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام سڑکوں پر نکل آئی۔ شدید نعرے بازی، مظایرے کیے گئے۔ توڑ پھوڑ کی گئ اور ملکی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
 کیوں؟
اس لیئے کیونکہ ھم بہت باغیرت قوم ہیں۔
اپنے نبی سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کی حرمت پر کوئی انگلی اٹھائے یہ ھمیں گوارا نہیں۔
اپنے مچلتے جذبات کو ایک منٹ کے لیئے لگام دیں، جس عقل کو
چلتا کر رکھا ہے اس کا دامن تھامیں، کچھ ہوش کے ناخن لیں اور تھنڈے دماغ سے سوچیں۔ کیا یہ سب اس مسئلے کا دانشوارانہ حل ہے؟ اگر تو جواب ہاں ہے تو معذرت کے ساتھ اس ناقص عقل کو چلتا ہی کریں۔
وگرنہ بات کی گہرائی میں اتریں۔ معاملے کی پڑتال کریں اور پھر نہ صرف رائے قائم کریں بلکہ اس پر بخوشی عمل درآمد بھی کریں۔
بات اگر شروع سے شروع کی جائے تو مناسب ہے۔
یہ خبر سننے کے بعد آپ کا فوری تاثر کیا تھا؟ کیا میں یا آپ شدید دکھ میں مبتلا ہو گئے؟ کیا ھم نے فوری طور پر اپنے کسی دوست کو بتایا؟ کیا ھم صدمے سے کچھ دیر کو ہی سہی گنگ ہو گئے؟ کیا یہ خبر سن کر ھماری آنکھ سے ایک بھی آنسو ٹپکا؟ کیا اس حادثے سے ھماری روزمرہ زندگی پر کوئی اثر ہوا؟
ان سب باتوں کا جواب نفی میں ہے۔ ھم سب کو معلوم ہے۔
جناب عالی، سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ھماری سمت غلط ہے اگر کوئی سمت ہے تو۔۔۔
اللہ نے قرآن میں کئی اقوام کا ذکر فرمایا ھے اور ساتھ تباہی کے اسباب بھی بتا دیے۔ ھماری قوم نے وہ اسباب پڑھے اور بلا کم و کاست اپنا لیے۔  اب کیا ھم اللہ کا راستہ چھوڑ کر گمراہوں کا راستہ، شیطان کا راستہ اپنایئں تو ھمیں سزا کے حقدار نہیں؟ ابلیس کے ایک انکار کو شرماتے ہوئے ھم ہر روز پانچ مرتبہ سجدے سے انکار کریں تو کیا اللہ کو ھمیں معاف کر دینا چایئے؟  
اسم محمد کو لکھنا اور چومنا تو دور کی بات ھم تو نام محمد کوہی بھلا بیٹھے ہیں۔ ھماری کاروباری، سماجی، معاشی اور معاشرتی زندگی میں کہاں گزر ہے اسلام اور شریعت کا؟ اپنی عام زندگی میں ھمیں دھوکا دینے کی اتنی عادت پو گئی ہے کہ اب ھم اللہ کو بھی دھوکا دینے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔
جھوٹے وعدوں سے، نعروِں سے، دعووں سے۔۔ ایک نظر ھم خود پر ڈالتے ہیں۔ کیا واقعی اللہ اپنے محبوب کی ناموس ھماری تحویل میں دے گا؟ کیا واقعی اللہ تعالی‘ اس سرکش قوم کو اپنا والی بنائے گا؟ بھلے محمد نے ‘یا امتی، یا امتی’ پکارا ہو، کیا ھم نے خود کو اہل ثابت کیا؟ کیوں غیروں کا ہاتھ ھمارے گریبان تک پہنچا تو ہوش آیا؟ کیا آج سے پہلے تک امت محمد کا یہ کام نہ تھا کہ اپنا قلعہ مضبوط کرتے؟
مان لیا کہ اس وقت غلطی ہوئی مگر اب اس غلطی کا ازالہ کون کرے گا؟ کیا ٱپ کے یا میرے پاس وقت ہے کہ اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں؟ یہ دیکھیں کہ سدھرنے کا عمل کہاں سے شروع ہونا چایئے۔ کیا اب وقت نہیں کہ تیل کے کنووں کے ساتھ رہن رکھی غیرت واپس لے لی جائے؟
اب نہیں تو آخر کب ھم حشر کے اس میدان کا سوچیں گے جہاں کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھا سکے گا۔ اتنے زپادہ گناہ کیسے اٹھا پایئں گے، کیسے اتنا حساب چکا پایئں گے؟ اس دن جب سورج سوا نیزے پر ہو گا، عرش الہی کے سوا کویی سایہ نہ ہو گا، ایک دن ہزار ایام کر برابر ہو گا، اور جب صرف انصاف کی بات ہو گی۔ ہر چیز ترازو میں تولی جائے گی، اس دن ہر کلمہ گو کو صرف ایک ھی ہستی کے سجدے کا آسرا ہو گا۔ لیکن اس گھڑی میں جب اعمال نامہ ہاتھ میں ہو گا اور بندۂ خدا ہر جھوٹ سے بالاتر ہو گا تو کیا اپنی اندر اتنی ہمت پائے گا کہ رسول۔خدا سے شفاعت کی بھیک مانگ سکے؟
یہ تمام اقدامات عارضی ہیں۔ کچھ عرصے کے لیئے یوٹیوب پر پابندی، ایک دو دن ہڑتال، جمعے کے روز چھٹی، فیس بک پر مزحمتی جملے اور بس؟ عملی زندگی میں تبدیلی کہاں ہے؟ یہ وہ ایمان کا ٱخری درجہ نہیں ہے۔ یہ ھماری کمزوری ہے۔
اگر دشمن پر وار کرنا ہے تو ٹھیک سے کرو۔
HIT WHERE IT HURTS THE MOST!
پہلے جان لو کہ جس کے عاشق ہونے کا دعوا پے، وہ ہستی یے کون؟ اسکول میں پڑھی ہوئی اسلامیات کی کتاب کے علاوہ کتنا جانتے ہیں ھم نبی کو؟ان کی تعلیمات کو؟ ان کی زندگی کو؟ ان کی سنت اور احکامات کو؟
یہ وقت ذمین و ٱسمان پر بھاری یے۔ محبوب اللہ کے گنہگار سرعام گستاخی میں مصروف ہیں اور کوئی مسلم ریاست اس تماشے کو روک نہیں پا رہی۔ اس وقت اگر کوئی چیز مسلمانوں کو عتاب الہی سے بچا سکتی ہے تو وہ توبہ ہے۔ معافی اور امت مسلمہ کی یکجہتی۔ ابھی مہلت کے کچھ پل باقی ہیں۔ ابھی ٱخری دروازہ بند نہیں ہوا۔ تقدیر ابھی ھمارے ٱخری فیصلے کی منتظر ہے۔۔۔۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیئے
نیل کے ساحل سے لے کے تابخاکِ کاشغر

Saturday 15 September 2012

sssshhh!


‘write’
‘think’
‘do something’
I have been urging myself for so long now but all in vain.its not that I have nothing to write. I am still full of words and stories but I don’t have any strength left to write even when I want to. There are so many things I want to say to so many people but its as if my lips are sealed.
I know I am not writing anything worthy here but I don’t care anymore. I am facing a blind end in my life at the moment. May be I will get over this feeling in a day or two or may be this feeling will stay for a good long time, who knows.
There comes a time in your life when you all of a sudden don’t care. Your heart might still be bleeding over the pains of past or your mind might still be calculating the daily on goings but emotionally you feel dead.
For me, its stopping. Taking a break.
From the moment we step into society we are caught up in a race.
Run fast, faster faster…………….. until you drop dead.
That’s called race of life!
But really? Do we actually want this from our precious , only once given life?
Race…
What happened to the old concepts of contentment and peace of mind, Love and sincerity? Replaced by chanel, Gucci and Alexander McQueen?
Don’t answer! No matter how vigorously we deny this, the truth is that we all dream to have bigger homes, bigger cars, bigger bank balances…
We really don’t have enough TIME.
We have everything but no time to enjoy it, no time to stop and look around that who we are leaving behind, who feels what or whatever.
But is this all worth it?
Ask about me and I want to go back to older times. 
When people mattered the most in life.
When it was important not to break hearts and trusts.
When it wasn’t okay to leave behind your home and loved ones for money.
I want to be a part of that old non technical world where although people were not connected through telephones and internet but intuitions connected them.
I wish to go back to the era where I would have mattered for someone. 
Where people were NOT choices and options but precious beings.
I know this sounds like a piece of shit but it’s still better than feeling like one.
I don’t know when I will be back to my normal self but if you seriously ask me , I’d say “ Too bad we are not kids anymore where every wound would heal and everything would be forgotten. At this age, the damages are permanent!”