Thursday 2 July 2015

تم ناراض ہو!


  تمھاری کالی آنکھوں میں آنسو یوں دکھتا ہے جیسےکالے آسمان پہ چمکتا قطب ستارہ ۔۔ 
اور اگر تم ان آنسووٗں بھری آنکھوں سے کسی کو دیکھ لو تو اس طلسم کے توڑ میں 
  اسکی زندگی بیت جائے مگرمکمل اثر زائل نہ ہو۔ 
تمھارےچہرے پہ پھیلی اداسی ایبٹ آباد کی یاد دلاتی ہے جہاں ایک پل کو دھوپ ہوتی ہے اور اگلے ہی لمحےکالی گھٹا یوں سورج کو ڈھانپ لیتی ہے کہ اندر تک اداسی چھا جاتی ہے۔ تمھاری اداسی بھی میرے اندر تک چھا جاتی ہے۔ 
روٹھتی ہو تو یوں لگتا ہے جیسے اب کبھی نہ مانو گی۔ شکایتی نظروں سے دیکھتی ہو تو دنیا بھول کر انسان بس اک نگاہ کا ہو کر رہجاتا ہے۔
یوں تو تمھاری ناراضگی چند پھولوں کے آگے دو پل میں دم توڑ جاتی ہے مگر وہ دو پل بھی صدیوں پہ محیط ہوتےہیں۔ 
سنو تم ناراض نہ ہوا کرو۔ وقت، موسم، محبت، زندگی سب ادھورے لگنے لگتے ہیں۔ 
کبھی کہہ کر تو دیکھو، تمھاری مسکراہٹ کے لیے دشت و صحرا کی خاک چھاننا بھی قبول ہے۔ 
کاش، میرے اندر گونجتی یہ آواز تم سنو تو ہر بات بھول کر حیرت سے مجھےدیکھو۔۔۔ پھر میں ہاتھ بڑھا کر تمھارا گال نرمی سے چھو لوں اور تمھارے اندر کی تمام اداسی اپنی ہتھیلی میں بھر لوں۔۔
!کاش

No comments:

Post a Comment