Wednesday 3 July 2013

آخری امید

آسمان سے لگاتار برف کے چھوٹے چھوٹے  گولے زمین کی جانب آ ریے تھے۔ گلالے کھڑکی کے شیشے سے منہ لگائے بایر جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس کہرے زدہ شیشے سے کچھ بھی نظر آنا ناممکن تھا۔ وہ بار بار اپنی آستین سے شیشے کو رگڑتی لیکن بے سود۔ کہرا باہر کی جانب سے شیشے کو دھندلا رہا تھا۔ تیرہ سال کی گلالے نے زندگی میں برفیلے پہاڑوں، سرد ہواوں اور کوہ پیماوں سے بڑھ کے کچھ نہ دیکھا تھا۔ اس کے تصور کی دنیا بس اتنی سی تھی کہ جب سورج نکلنے کا موسم آتا تھا تو وہ گھر سے نکل کر کورفی میں گھومنے جا سکتی تھی۔ زہادہ دور نہیں، بس آس پاس ۔۔کبھی فاطمہ نہ ہوتی تھی تو وہ خاموش بیٹھ کے کے۲ کو دیکھتی تھی۔ ننھے تنکوں کی مانند نظر آتے کوہ پیماہ اسے بہت پسند تھے۔ وہ گھنٹوں نیچے بیٹھی ان کے لیٗے دعا کرتی تھی۔ آلے نے بتایا تھا کہ یہ لوگ دور دیسوں سے بہت سے پیسے خرچ کر کے یہ پہاڑ دیکھنے آتے ہیں۔ کچھ اس وجہ سے اور کچھ ان رنگوں کی وجہ سے جو یہ لوگ لاتے تھے گلالے کو ان اجنبیوں سے بہت محبت تھی۔                        
اس کے گاوؑں میں آبادی کم تھی ، باتیں کم تھیں،اور اس کو تو لگتا تھا کہ خوشیاں ان سب سے کم تھیں۔ جب کسی کی شادی ہوتی تو گاوؑں کے لوگ کئ دن تک جشن مناتے، وہی روایتی رقص اور گیت۔ گلالے ھمیشہ بہت شوق سے ان گیتوں میں شریک ہوتی تھی لیکن خود کے لیئے وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ یہ کیا کہ اسی کورفی میں بسنے والے سے شادی بھی کر لو۔ وہ اپنی گڑیا کے لیئے بھی فاطمہ کے گڈے کا رشتہ نہیں لیتی تھی۔
 وہ جو سامنے پہاڑ یے نا فاطمہ، اس کے اس پار جانتی ہو کیا یے؟ اپنے گھر کے سامنے موجود ایک بڑے سے پتھر پر کھڑے ہو کے اس نےبائیں ہاتھ سے سامنے والے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا۔
نہیں۔ کیا ہے؟ فاطمہ بیچاری گلالے کو حیرت سےدیکھتی۔ ہمیشہ ہر وقت ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود نجانے گلالے کو کون اتنی بڑی بڑی باتیں بتاتا تھا۔
فاطمہ اس پہاڑکے پیچھے ایک بادشاہ کا ملک ہے، وہاں دھوپ نکلتی ہے، اوں ہوں کورفی کی طرح نہیں کہ ترسا ترسا کہ سورج جھلک دکھائے، وہ بھی اتنے ماہ بعد ۔ ۔ اصل سنہری دھوپ اور بے حد سبز باغ جہاں درختوں پہ خون کی طرح لال لال سیب لگتے ہیں۔ اور ایک سفید محل بھی یے جس میں شہزادے اور شہزادیاں رہتے ہیں۔
یہ سب کہتے کہتے گلالے کا لہجہ مدھم ہو جاتا، بھوری آنکھیں خوابناک ہو جاتیں۔
اور پتہ یے فاطمہ اس سبز باغ کے درمیان ایک ندی بہتی یے، ایساپانی نیہں کہ خون جمادے ، بلکہ ہلکا گرم ۔اور اس میں شام کو شہزادیاں پاوْں ڈال کے بیٹھتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں۔
یہ سب باتیں تمہیں کیسے پتا گلالے؟
او، یادیے پچھلے سال ایک کوہ پیماہ عورت آئی تھی؟ جو بیچاری بیمار پڑ گئی تھی؟ اسی نے بتائی تھیں نا۔ وہ وہاں سے گزر کے آئی تھی۔
فاطمہ اس پہاڑ کے اس پار بہت خوبصورت جگہ ہے۔ کیا تم وہاں جانا چاہتی ہو؟ گلالےنےبہت آس سے پوچھا۔
نہیں، پتہ نہیں گلالے تم کیسی باتیں کرتی ہو۔ آوؑ نا، اندھیرا بڑھ رہا ہے۔
فاطمہ نے کہا اور جلدی سے گھر کی طرف بھاگنےلگی، گلالے سے دور۔ اس کو اب دن بدن گلالے کی دور دیس کی باتوں سے الجھن ہونے لگی تھی۔ یہ سب اس کی ذہنی بساط سے بہت اوپر کی سوچیں تھیں۔ وہ کبھی گلالے کی طرح نہیں سوچ سکتی تھی، وہ اس کی طرح اونچی اڑان سے بے خوف نہیں تھی۔  گلالے اس کو خود سے دور جاتا دیکھتی رہی، بنا کوئی حرکت کئیے وہ کئی ساعتوں تک کھڑی رہی، یہاں تک کہ اس کو احساس ہوا کہ ہوا میں خنکی بڑھ گئی ہے اور اب آلے اتنی دیر باہر رہنے پہ اس کی اچھی خاصی خبر لیں گی۔
کہاں رہ گئ تھی گلالے؟ معلوم بھی یے کہ ہوں لڑکیاں سورج ڈھلنے کے بعد باہر رہیں تو شام کا آسیب آ جاتا ہے۔ تم منع کیوں نہیں ہوتی؟ آلے نے سختی سے اسے ڈانٹامگر اس کے لئے وہ پہلے سے تیار تھی اس لئیے زیادہ برا نہیں لگا۔
آلے ٹیم نیہں آئی؟ انگھیٹی سے قریب تر ہوتے ہوئے اس نے اپنا روز کا سوال دہرایا۔  
دو ماہ بعد ۔ آلے کو بھی جیسے اب اس سوال کی عادت سی ہو گئ تھی۔
 خاموشی بڑھی تو آلے نے مڑ کے گلالے کو دیکھا۔وہ آگ کے پاس لیٹی اونگھ رہی تھی۔ سفید رنگت پر دہکے ہوئے گال مزید سرخ لگ رہے تھے۔ آگ کی روشنی میں اس کے بالوں کا سنہری رنگ نمایاں ہو رہا تھا۔ اس کا قد بھی اپنی عمر کی باقی لڑکیوں سے کافی لمبا تھا۔ گلالے کورفی کی اندھیری رات کا چمکدار چاند تھی۔
مئی جون کے مہینے سب کے لئیے زندگی کی نوید لاتے تھے۔ سال کے اس وقت ان برفیلے پہاڑوں پہ زندگی انگڑائی لے کے بیدار ہوتی تھی۔ جیسے کہانی میں سفید سویا ہوا محل، کسی بھولے بھٹکے شہزادے کے  آ جانے سے جاگ اٹھتا یے، بلکل ویسے ہی ان بھٹکی ہوئی سورج کی کرنوں سے کورفی کے جامد ایام جاگتے تھے۔ چھوٹے سے گاوؑں میں انجانے دیس سے آنے والوں کا انتظار شروع ہو گیا تھا۔ ایکسپیڈہشن کے ساتھ یہاں سے لوکل لوگ پورٹر، گائیڈ اور باورچی کی حیژیت سے جاتے تھے۔  گلالے کا باپ بھی گائیڈ تھا۔ ان ہیبت ناک پہاڑوں کے کسی شگاف میں اس کی قبر تھی۔ لیکن کورفی والوں کا بہت حوصلہ تھا یا شاید ان کی مجبوری بہت طاقتور تھی۔
اس دفعہ پرتگال، اندلس اور عراق سے کوہ پیماہ آئے تھے۔ اونچے لمبے مرد اور گوری چمکدار آنکھوں والی عورتیں۔ آلے یہ اتنی دور سے آتے ہیں، پہاڑ چڑھنے اور ھم پاس رہتے ہوتے ہوئے بھی اوپر نہیں جاتے۔ گلالے ہنس کے کہتی تو آلے دہل جاتی۔ وہ گالالے کو بتا نہیں سکتی تھی کہ سہاگنوں کو ان اونچے دلکش پہاڑوں سے کس قدر نفرت ہوتی تھی، جن میں موجود شگافوں میں نجانے کتنی آنکھوں کے روپہلے سپنے سو رہے تھے۔ ان سرپھرے کوہ پیماوؑں کے ساتھ اپنی زندگیوں کے سرمائے بھیجتے ہوئے کیسے دل ڈوبتا تھا ، وہ گلالے کو سمجھا نہیں سکتی تھیں کہ ابھی گلالے کی آنکھوں میں خواب بستے تھے۔گرچے ان خوابوں کی عمر مختصر تھی مگر وہ سفاکی سے ان کا گلہ نہیں گھونٹنا چاہتی تھیں۔ ایک دن گلالے خود سمجھ جائے گی۔
اس ٹیم نے گاوؑں میں مکانوں سے کچھ فاصلے پہ اپنے خیمے نصب کیے تھے۔ وہ بہت تھکان والے سفر کے بعد کورفی پہنچے تھے۔ ابھی کچھ دن یہاں ٹھہرنے کا ارادہ تھا۔ وہ بہت زندہ دل لوگ تھے۔ گاوؑں کے لوگوں سے ملتے تھے۔ رات کو خیموں کے بایر الاوؑ جلا کے اپنے اپنے وطنوں کے گیت گاتے تو کورفی کی فضا جھوم اٹھتی تھی۔ جواب میں گاوؑں کے لوگ بھی اپنا رقص دکھاتے اور اجنبیوں سے داد وصول کرتے تھے۔ ان کا ایک آدمی اپنے ساتھ بڑا سا کیمرہ لایا تھا۔ جب وہ تصویریں بناتا تو گلالے اسے چھپ کے دیکھتی، لیکن اجنبی بہت ہوشیار تھا۔ ایک دن اجانک سے گلالے کو بڑے پتھر کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے پکڑ لیا۔ گلالے کھسیانی ہنسی ہنسنے لگی، اپنی حرکت پہ شرم آئی تو گلابی گال تھوڑے اور گہرے ہو گئے۔ اس روز اس نے اجنی سے باقاعدہ دوستی کر لی۔ اس کا نام میر جمال تھا۔ عراق سے آیا تھا اور اپنے نام کی طرح خوبصورت تھا۔ گلالے اس کی ہر حرکت اور بات غور سے دیکھتی تھی۔ اس ٹیم کےساتھ گزارے تین دن گلالے کی زندگی کے بہترین دنوں میں سے تھے۔
جس دن ٹیم نے واپس جانا تھا، اس دن گلالے بہت اداس تھی، پر کورفی والوں کی یہی زندگی تھی۔ ہر سال وہ اجنبیوں کو مہمان کرتے تھے اور چند دن کی رفاقت کے بعد بچھڑنے کا موسم آ جاتا جو تمام حیات پہ محیط ہوتا تھا۔ یہاں سے جانے کے بعد نجانے کون کون کتنے دن تک کس کس
کو یاد کرتا تھا، کون جانے ۔ ۔ اس رات سب جلدی خیموں میں چلے گئے تھے کیونکہ انہیں کاذب کے وقت نکلنا تھا۔ گلالے نے اس رات خواب میں بس جدائی دیکھی۔ بہت بے چین رات تھی۔ آلے سے اسے یوں کروٹیں بدلتے دیکھا تو اٹھ بیھٹیں۔ کیا ہوا گلی؟ نیند نہیں آتی کیاَ؟
آلے بہت بے چینی یے۔ لگتا یے کچھ کھونے والی ہوں۔
دعا پڑھو گلی، اللہ خیر رکھے گا۔
آلے بھول گئی تھیں کہ اللہ ہمیشہ خیر رکھتا ہے ، شر تو بندے کا کام ہے اور بندے کو اللہ کے قیامت تک مہلت دے رکھی ہے۔
کورفی کی وہ صبح بہت غضب کی تھی۔ کہرام برپا تھا۔ گلالے پھٹی پھٹی آنکھوں سے سفید برف پر جا بجا خون کے سرخ دھبوں کو دیکھ رہی تھی۔ خیمیں اتارے جا چکے تھے۔ ۱۱ لوگوں پر چادریں ڈال کر ان کے وجود کو ڈھانپ دیا تھا، ان کے بس میں اور کچھ تھا بھی نہیں۔ آلے یہ کیا ہوا؟ گلالے نے بہت روتے ہوئے آلے کے گلے لگ کے کہا۔ اس نے زندگی میں ایسی بربریت، ایسی سفاکی نہیں دیکھی تھی۔ وہ ڈر گئی تھی۔ میر جمال کا مسکراتا اس کی نظروں سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔ اور اس بھورے بالوں والی پرتگالی کا گیت ، اور اندلس کا وہ جوان جو آخری رات بھی ہسپانوی زبان میں سب کو الوداعی نغمے سنا رہا تھا۔
کیا جب رات بے چینی سے گلالے کروٹیں بدل رہی تھی  تو کیا اس لمحے موت میر جمال کے سرہانے کھڑی ہو گی؟
گلالے اس پتھر کے پیچھے چھپ کے بہت روئی۔ اسے لگا شاید اس بار پھر میر جمال اسے ڈھونڈ نکالے گا اور ہیستے ہوئے اپنے ساتھیوں کو گلالے کی شرارت سنائے گا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
آرمی کے ہیلی کاپٹروں میں بہت سے لوگ آئے۔ ان لوگوں کو کاندھا دینے جن کا خواب تھا کہ وہ دنیا کی بلند چوٹیوں کو اپنے پاوؑں تلے روندیں۔
اس کے بعد کورفی کے لوگوں کا امتحان شروع ہوا۔ وردی پہنے لوگ آ کے سوال پہ سوال کرتے رہتے۔ کورفی کے معصوم لوگ گم سم کھڑے رہتے۔ ان کے چھوٹے سے گاوؑں میں کب کیسے یہ سب ہو گیا، انہیں معلوم نہیں ہوا۔  
اس بات کو تین دن گزرے تھے، گلالے اب تک روتی تھی۔ خیموں کے پاس خون کے دھبے اب مدھم ہو گئے تھے۔
آلے ۔ ۔ ابھی سورج ڈھلنے میں کچھ دیر تھی کہ گلالے بھاگتی ہوئی آئی۔ پھولی
ہوئی سانسوں کے درمیان بمشکل بولی: یہ ملا ھے مجھے ، وہاں خیمے سے ذرا دور ، برف میں۔ ۔ ایک گلے میں ڈالنے والی مالا تھی۔
آلے کس نے مارا یے کوہ پیماوؑں کو؟ بتاوؑ نا ۔ ۔ کیا اسے رحم نہیں آیا؟ آلے پہاڑ پار والے بادشاہ کو کیوں نہیں بلاتے؟
اتنا بڑا ملک یے اس کا۔۔ وہ ۔۔
۔
گلالے ۔ ۔ خاموش رہو ۔ ۔ جانتی ہو پہاڑ کے اس پار کوئی سفید محل نہیں ہے، کوئی ہلکے گرم پانی کی ندی بھی نہیں بہتی، 
گلالے وہاں اس دیس یہ آسیب ہیں۔ ایسے بے رحم جو پہاڑ کے اس بار بسنے والوں کا نہیں سوچتے۔ ۔ گلالے یہ لوگ جب کھانا کھاتے ہیں تو ان کے شعور کے کسی تاریک کونوں میں بھی برف میں ٹھٹھرتے بےحال لوگوں کا خیال نہیں آتا۔ یہ کوہ پیماہ اپنے ساتھ ھمارا رزق بھی لاتے ہیں تو بتاوؑ گلالے ، کبھی کوئی رزق پھینکتا ہے؟ تم نے دیکھا یے کبھی کورفی کے لوگوں کو کھانا ضا ؑع کرتے ہوئے؟ 
پھر یہ کیسے ہو گیا کہ اچانک ہی کورفی والوں نے اپنا رزق اور رونق کو قتل کر ڈالا ہو؟ دراصل تو سوال یہاں کے لوگوں کوکرنا چائیے ۔ سالہا سال سے محفوظ سیاح کورفی کے برفیلے پہاڑوں میں کیسے اور کیوں مار دیے گئے؟

اب سو جاوؑ گلالے اور بھول جاوؑ کہ پہاڑ کے اس پار کوئی دنیا ہے۔ میر جمال کو بھی بھول جاوؑ۔ بس دعا کرو کہ اللہ دنیا کی
 لوگوں کے دل سے پہاڑوں کاعشق نہ نکالے۔۔۔ اور اگلے سال اور اس سے اگلے سال برف کے یہ گاوؑں پھر سے آباد ہوں۔کسی اور دیس کے نغموں سے ، سفیدی پر کسی اور نگری کے رنگ نقش ہوں ۔۔دعا کرو گلالے کہ کورفی آباد رہے ۔۔
 گلوگیر لہجے میں کہتے ہوئے آلے نے گالوں پہ پھسل آنے والے آنسو آہستگی سی پونچھ ڈالے۔گلالے ان کی بات سنتے سنتے نجانے کب سو گئی تھی۔ اچھا تھا، اس کی آُخری امید ٹوٹی تھی، اس کی دور جھیلوں سے آباد سلطنت اجڑی تھی۔ گلالے کو ابھی سنبھلنے میں وقت لگے گا۔ ۔ بس کچھ وقت ۔۔  

6 comments:

  1. Very nice zainabbb
    Keep creating these masterpieces despite of all the twists ;)

    ReplyDelete
  2. :) thank u. i will keep trying.

    ReplyDelete
  3. Ab kahan wo andaz e bayaan baaqi
    Jab na rooh e muhabbat baaqi na qurb e yaar baaqi

    ReplyDelete
  4. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  5. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete