Saturday 20 December 2014

میرے گمشدہ



ایمل ، حسن، مبین اور ان سب پیارے بچوں کے نام جن کا  قرض ھم پہ واجب ہے
دیکھو جنگ کا موسم یے
چلو اب جنگ کرتے ہیں
بات قلم کی حد کو توڑ کے
تلواروں تک ہے جا پہنچی
چلو اب تلوار اٹھاتے ہیں
کچھ معصوم بچوں نے، لہو کا قرض دیا ہے
اپنے بوجھل ضمیروں سے چلو یہ قرض مٹاتے ہیں
بہت اندھیری سی راتیں ہیں، افق پہ تارے جو ڈوبے ہیں
ان تاروں کی یاد میں چلو شمعیں جلاتے ہیں
یہ بے مہر صبحیں، یہ بے درد سے درد
ان ناسور سے زخموں پہ چلو مرہم لگاتے ہیں
بہت دے چکے لہو بے کسی کی حالت میں
چلو اب ہوش میں آ کر کچھ لہو بہاتے ہیں
بہت بھاری ہو چکی ہیں ظلم کی زنجیریں
چلو رہائی کی جانب قدم بڑھاتے ہیں
ہاتھ تو یوں بھی خالی ہو چکے سب کے
اک دوسرے کے وجود سے چلو تنہائی مٹاتے ہیں
مصلحتوں کی دکانوں پہ بکتے ان مشوروں سے
چلو دامن چھڑاتے ہیں
کچھ بے خوف سے فیصلے جو منتظر کب سے ہیں
چلو ان فیصلوں کا انتظار مٹاتے ہیں
خود سے مبرا ہو کے سوچتے ہیں ان نسلوں کا، جنہں ابھی دنیا میں آنا یے
ان کی آمد سے قبل چلو امن کا بیج بوتے ہیں
چلو جنگ کی موسم میں اب ہتھیار اٹھاتے ہیں
دشمن کے ہاتھوں زک آخری بار اٹھاتے ہیں
دیکھو جنگ کا موسم یے ۔ ۔ ۔

No comments:

Post a Comment