کیوں بند کر رکھے ہیں اتنے الفاظ اپنے ہونٹوں میں مری جاں
ان کو آزاد کرو کہ کوئی لبِ جاں ہے
کچھ زخم بےقرار ہیں اس مرہم کے لیے
اور کچھ دل بھی آزار ہیں
اس دھن پہ بہکنے کو کچھ دھڑکنیں بھی بے تاب ہیں
کچھ تو کہو کہ اس گزرتے وقت کا حصول ہو
میری ضائع زندگی کا کچھ تو محصول ہو
...اپنی جان قرض دی ہے، بولو کہ مجھے کچھ تو وصول ہو
میری اس بے رنگ زندگی میں۔۔
ReplyDeleteتیری روُح گرماتی دھنک کا نزُول ہو۔۔
تُو مجُھ کو دے اک نئی اُونچی اُڑان کی ہمت۔۔
تُجھ میں کھونا، فقط تیرا ہی ہونا، میرا معمُول ہو۔۔۔