Monday 11 November 2019

اداس اور مسحورکن


, سنو
 . ہمیں ستارے یاد کرتے ہیں
. آدھی رات کو ہمارا انتظار کرتے ہیں
سوچتے ہیں کہ کہاں گئے وہ دو دیوانے ، جن کی راہ راستے بھی تکتے تھے 
کہاں چھپ گئے ہیں وہ آوارہ مسافر ، جن کی خاموشی سے تیرگی جاگتی تھی 
اب کیوں نہیں آتے ؟

میرا ایک کام کرو
کسی رات تنہا سفر کرو 
ان ویران راستوں پہ
اور کسی انجان موڑ پہ ٹھہر کر 
مجھے پکارو
ان ستاروں کو، چاند کو،جھیل کے پانی کو اور رات  کو بتاو
ھماری خاموش ملاقاتوں کا احوال سناو
جو وقت ہم نے زندگی سے ادھار مانگا تھا اس کی بابت بتاو
یہ کہو کہ وقت کی قید سے رہائی ملی تھی کچھ دیر ھم دونوں کو
لیکن پھر یہ ہوا کہ ھم پھر قید ہو گئے .. ایسا ارادہ نہ تھا ، قطعی نہیں ..
ہم تو صرف کھل کے سانس لینا چاہتے تھے
کسی بندش کی بغیر خود کو پہچاننا چاہتے تھے
محبت سے تو دور بھاگنا تھا ہمیں
صرف خود کو چاہنا تھا ..

لیکن یہ کم بخت ستارے ، یہ چاند اور جھیل کا پانی ..
ان کی بری نظر لگ گئی
ہم ساتھ نہ ہو کر بھی ساتھ چلنے لگے 
ایک دوسرے کے نہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ہونے لگے ..
سوچنے لگے کہ کاش مہلت اتنی مختصر نہ ہوتی
کاش حقیقت ہوتی تو یہی ہوتی اور کچھ نہ ہوتی 

مگر ہر خوبصورت چیز کی طرح یہ خواب بھی ادھورا رہا 
ادھورا ، اداس اور مسحورکن ...
 بار بار بلانے والا
نئے سرے سے دل توڑنے والا
ہر مسکراہٹ کو نا مکمل رکھنے والا

سنو،
ستاروں سے کہو ہمارا انتظار مت کریں 
اور چاند سے کہو جھیل پہ جھلملانا چھوڑ دے کہ اب کوئی دو سرپھرے اس کو سراہنے نہیں رکیں گے

اب ہمیں وقت کی قید سے رہائی ملنا ممکن نہیں .. 

No comments:

Post a Comment