Thursday 16 August 2012

ان کہی۔۔۔۔


نانی ۔۔۔ لگتا ہے جیسے کل کی بات یو کہ میں تمھاری گود میں سر رکھے لیٹی تھی۔  شرارت سے تمھیں دیکھتی تو کبھی تم غصے تو کبھی پیار سے جواب دیتی۔  دیکھو کل کی بات تو ہے کہ میں گڑیا کی شادی کرتی اور تم سے کپڑے سلواتی تھی۔ نانی بچپن گزرے کتنی گھڑیاں بیتی ہوں گی؟ میں تمھارے نرم بستر پر کتنی دیر میٹھی نیند سوئی ہوں گی؟ نانی پلک جھپکتے دیکھو ھر منظر کیسے بدل گیا۔۔ میری گڑیا کہیں گم ہوئی، میرا بچپن کہیں کھو گیا۔ اور آنکھ کھلی تو لکڑی کا پلنگ تمھارے وجود  سے خالی پایا۔ تمھارے بدن سے روح کیا نکلی، ہر موسم اداس ہو گیا۔ ہر سو اک گہری چپ کا راج ہو گیا۔اب کے برس تو سرما میں آسمان نے بھی روئی کے گال زمیں پر اتارے مبادا بارش کی آواز خلل نہ ڈالے۔ اور چڑیا آنگن میں آئی بھی تو سر جھکاےٌ دانہ چگتی رہی گویا چہچہانا جانتی ہی نہ ہو۔ ویران کمروں میں بس سانسوں کی آوازیں اور اس فسوں کو توڑتی کوئی سسکی۔ کس قدر عجیب لگا اس دفعہ تمھارے ہاتھ کی روٹی کے بغیر روزہ رکھنا، جیسے بغیر نمک کے ہانڈی کھانا۔ اور عجیب تر ہیں یہ دن جو تمھیں دیکھے اور سنے بنا گزر رہے ہیں۔ تمھارا بوڑھا وجود ،دیکھنے میں کبھی کتنا بیکار لگتا تھا  مگر اس کی چھاؤں میں کتنی راحت تھی، شدید دھوپ میں جلتے بدنوں کو اب احساس ہوتا ہے۔
نانی مجھے اپنی گڑیا ، مٹی کے کھلونے اور آنگن کا پیڑ یاد آتا ہے۔
اپنی شرارت، تمھاری ڈانٹ اور آنکھوں کی نرمی یاد آتی ہے۔
اپنی شکایت اور تمھاری مسکان یاد آتی ہے۔
نانی مجھے اچھا نہیں لگتا تمھارے وجود سے خالی یہ چمن۔۔
نہ موسم پہلے سے ریے، نہ بہار۔۔
پھول بھی تو دیکھو جیسے زبردستی کھل ریے ہوں۔
    دنیا کی ترقی دیکھوں تو رشک آتا ہے، مگر کس کام کی؟ تم سے ملاقات کا سبب تو بس اب کوئی خواب ہی بنے۔
مگر قسمت بھی ہر دفعہ ساتھ کہاں دیتی ہے۔
کھلی آنکھیں بس ایک ہی خواب دیکھتی ہیں کہ جب بند آنکھیں کھلیں تو میں، تم، گڑیا اور آنگن ساتھ ہوں۔



2 comments: