Friday 22 July 2016

نہیں

نہیں مجھے اب اور نہیں لکھنا محبت کے فسانوں کو ۔۔
تمھاری انکھوں کے سرابوں کو
نشے میں چور ، جذ بات سے مخمور تمھاری باتوں کو ۔۔۔ اب اور نہیں لکھنا۔۔ 
اب کے سمجھا دیا ہے میں نے دل کو کہ محبت اک لفظ کے سوا کچھ بھی نہیں
اب  اور نہیں سہنا اس کے عذابوں کو
  بتا دیا ہےخود کو کہ دل کا کام نہیں ہے یہ 
   ۔ مچلنا ۔ تڑپنا ۔ سلگنا ۔ بلکنا
نہیں سوچنا مجھے اب ستاروں کا، آسماں میں اپنی ذات کے جیسے تنہا سیارے کا
نہ بانسری کا اور نہ مرغزاروں کا 
نہ دور وادی
میں گونجتی رباب کی آوازوں کا
 اب انتظار میں وقت برباد نہیں کرنا
دیامر کے بہتے جھرنے
اور بے موسم کے کھلے پھولوں کو
نہیں دینی اب محبت سے تشبہہ، یہ سوچ لیا ہے میں نے
اب کبھی اپنی انکھوں میں جھانکنا نہیں ھے 
اب کبھی اترانا نہیں ہے
چہچہانا نہیں ہے
مسکرانا نہیں ہے
 !! اب کبھی محبت کو آزمانا نہیں ھے 

No comments:

Post a Comment