Sunday 30 June 2019

میں اور ہنزہ کا آسمان

  یہ ہنزہ کا آسمان ، میری آنکھوں کی طرح ہمیشہ برسنے کو تیار کیوں رہتا ہے؟ کس کی محبت اتنا بےچین رکھتی ہے اسے ۔۔ کیوں چمکیلی دھوپ کے بعد کسی کی جدائی کے بادل سب کچھ ڈھانپ لیتے ہیں ۔۔ کتنا حسن ہے اس وادی کے دامن میں مگر ہجر اوڑھ کر ہر دیکھنے والے کو سحرانگیز کر دیتا ہے۔۔ میرا تمھارا رشتہ کب اتنا بامعنی ہو گیا ہنزہ کے آسمان ، کب تم نے اتنا بلندی سے بھی دل میں جھانک لیا۔ کیسے پڑھ میری انکھوں کی نمی میں تیرتی تنہائی کو ۔۔ کسی کے بےحد انتظار کو کیسے ڈھونڈا میری ہنسی کی کھوکھلی گونج میں ۔۔ میری اداسی کو گھر دینے کے لیے شکریہ ۔۔ بار بار مہمان کرنے کا احسان رہے کا مجھ پہ ۔۔
ہنزہ کے آسمان ، تم  نےتو ہر دوست سے بڑھ کے دوستی نبھائی ، مقروض کیا ہے مجھے ان لمحوں کے لیے جب میرا آسمان ہجر کے بادلوں سے صاف ہو جائے گا ۔۔ تب یہ قرض رہے گا مجھ پہ کہ اپنی پہلی ہنسی اس ہوا کے سنگ تمھاری طرف اچھال دوں۔ وعدہ رہا کہ خوشی کی پہلی رات تاروں بھرے آسمان تلے گزرے گی۔ تب رت جگوں کی دو داستانیں ملیں گی۔ تب آنسوؤں میں ہنسی اور تاروں کی چمک ملے گی۔ اس دن میں یہ اداسی یہیں چھوڑ جاؤں گی ۔۔  ہنزہ کے آسمان ،اس دن میں اور تم یہ تعلق توڑ دیں گے ۔ تب ہم دھوپ اور ہنسی کا رشتہ جوڑیں گے ۔۔ اس دن شاید چیری میں بھی ہجر کی کھٹاس کی بجائے وصل کا ذائقہ ملے گا ۔۔ 

No comments:

Post a Comment