Wednesday, 3 July 2013

آخری امید

آسمان سے لگاتار برف کے چھوٹے چھوٹے  گولے زمین کی جانب آ ریے تھے۔ گلالے کھڑکی کے شیشے سے منہ لگائے بایر جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس کہرے زدہ شیشے سے کچھ بھی نظر آنا ناممکن تھا۔ وہ بار بار اپنی آستین سے شیشے کو رگڑتی لیکن بے سود۔ کہرا باہر کی جانب سے شیشے کو دھندلا رہا تھا۔ تیرہ سال کی گلالے نے زندگی میں برفیلے پہاڑوں، سرد ہواوں اور کوہ پیماوں سے بڑھ کے کچھ نہ دیکھا تھا۔ اس کے تصور کی دنیا بس اتنی سی تھی کہ جب سورج نکلنے کا موسم آتا تھا تو وہ گھر سے نکل کر کورفی میں گھومنے جا سکتی تھی۔ زہادہ دور نہیں، بس آس پاس ۔۔کبھی فاطمہ نہ ہوتی تھی تو وہ خاموش بیٹھ کے کے۲ کو دیکھتی تھی۔ ننھے تنکوں کی مانند نظر آتے کوہ پیماہ اسے بہت پسند تھے۔ وہ گھنٹوں نیچے بیٹھی ان کے لیٗے دعا کرتی تھی۔ آلے نے بتایا تھا کہ یہ لوگ دور دیسوں سے بہت سے پیسے خرچ کر کے یہ پہاڑ دیکھنے آتے ہیں۔ کچھ اس وجہ سے اور کچھ ان رنگوں کی وجہ سے جو یہ لوگ لاتے تھے گلالے کو ان اجنبیوں سے بہت محبت تھی۔                        
اس کے گاوؑں میں آبادی کم تھی ، باتیں کم تھیں،اور اس کو تو لگتا تھا کہ خوشیاں ان سب سے کم تھیں۔ جب کسی کی شادی ہوتی تو گاوؑں کے لوگ کئ دن تک جشن مناتے، وہی روایتی رقص اور گیت۔ گلالے ھمیشہ بہت شوق سے ان گیتوں میں شریک ہوتی تھی لیکن خود کے لیئے وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ یہ کیا کہ اسی کورفی میں بسنے والے سے شادی بھی کر لو۔ وہ اپنی گڑیا کے لیئے بھی فاطمہ کے گڈے کا رشتہ نہیں لیتی تھی۔
 وہ جو سامنے پہاڑ یے نا فاطمہ، اس کے اس پار جانتی ہو کیا یے؟ اپنے گھر کے سامنے موجود ایک بڑے سے پتھر پر کھڑے ہو کے اس نےبائیں ہاتھ سے سامنے والے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا۔
نہیں۔ کیا ہے؟ فاطمہ بیچاری گلالے کو حیرت سےدیکھتی۔ ہمیشہ ہر وقت ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود نجانے گلالے کو کون اتنی بڑی بڑی باتیں بتاتا تھا۔
فاطمہ اس پہاڑکے پیچھے ایک بادشاہ کا ملک ہے، وہاں دھوپ نکلتی ہے، اوں ہوں کورفی کی طرح نہیں کہ ترسا ترسا کہ سورج جھلک دکھائے، وہ بھی اتنے ماہ بعد ۔ ۔ اصل سنہری دھوپ اور بے حد سبز باغ جہاں درختوں پہ خون کی طرح لال لال سیب لگتے ہیں۔ اور ایک سفید محل بھی یے جس میں شہزادے اور شہزادیاں رہتے ہیں۔
یہ سب کہتے کہتے گلالے کا لہجہ مدھم ہو جاتا، بھوری آنکھیں خوابناک ہو جاتیں۔
اور پتہ یے فاطمہ اس سبز باغ کے درمیان ایک ندی بہتی یے، ایساپانی نیہں کہ خون جمادے ، بلکہ ہلکا گرم ۔اور اس میں شام کو شہزادیاں پاوْں ڈال کے بیٹھتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں۔
یہ سب باتیں تمہیں کیسے پتا گلالے؟
او، یادیے پچھلے سال ایک کوہ پیماہ عورت آئی تھی؟ جو بیچاری بیمار پڑ گئی تھی؟ اسی نے بتائی تھیں نا۔ وہ وہاں سے گزر کے آئی تھی۔
فاطمہ اس پہاڑ کے اس پار بہت خوبصورت جگہ ہے۔ کیا تم وہاں جانا چاہتی ہو؟ گلالےنےبہت آس سے پوچھا۔
نہیں، پتہ نہیں گلالے تم کیسی باتیں کرتی ہو۔ آوؑ نا، اندھیرا بڑھ رہا ہے۔
فاطمہ نے کہا اور جلدی سے گھر کی طرف بھاگنےلگی، گلالے سے دور۔ اس کو اب دن بدن گلالے کی دور دیس کی باتوں سے الجھن ہونے لگی تھی۔ یہ سب اس کی ذہنی بساط سے بہت اوپر کی سوچیں تھیں۔ وہ کبھی گلالے کی طرح نہیں سوچ سکتی تھی، وہ اس کی طرح اونچی اڑان سے بے خوف نہیں تھی۔  گلالے اس کو خود سے دور جاتا دیکھتی رہی، بنا کوئی حرکت کئیے وہ کئی ساعتوں تک کھڑی رہی، یہاں تک کہ اس کو احساس ہوا کہ ہوا میں خنکی بڑھ گئی ہے اور اب آلے اتنی دیر باہر رہنے پہ اس کی اچھی خاصی خبر لیں گی۔
کہاں رہ گئ تھی گلالے؟ معلوم بھی یے کہ ہوں لڑکیاں سورج ڈھلنے کے بعد باہر رہیں تو شام کا آسیب آ جاتا ہے۔ تم منع کیوں نہیں ہوتی؟ آلے نے سختی سے اسے ڈانٹامگر اس کے لئے وہ پہلے سے تیار تھی اس لئیے زیادہ برا نہیں لگا۔
آلے ٹیم نیہں آئی؟ انگھیٹی سے قریب تر ہوتے ہوئے اس نے اپنا روز کا سوال دہرایا۔  
دو ماہ بعد ۔ آلے کو بھی جیسے اب اس سوال کی عادت سی ہو گئ تھی۔
 خاموشی بڑھی تو آلے نے مڑ کے گلالے کو دیکھا۔وہ آگ کے پاس لیٹی اونگھ رہی تھی۔ سفید رنگت پر دہکے ہوئے گال مزید سرخ لگ رہے تھے۔ آگ کی روشنی میں اس کے بالوں کا سنہری رنگ نمایاں ہو رہا تھا۔ اس کا قد بھی اپنی عمر کی باقی لڑکیوں سے کافی لمبا تھا۔ گلالے کورفی کی اندھیری رات کا چمکدار چاند تھی۔
مئی جون کے مہینے سب کے لئیے زندگی کی نوید لاتے تھے۔ سال کے اس وقت ان برفیلے پہاڑوں پہ زندگی انگڑائی لے کے بیدار ہوتی تھی۔ جیسے کہانی میں سفید سویا ہوا محل، کسی بھولے بھٹکے شہزادے کے  آ جانے سے جاگ اٹھتا یے، بلکل ویسے ہی ان بھٹکی ہوئی سورج کی کرنوں سے کورفی کے جامد ایام جاگتے تھے۔ چھوٹے سے گاوؑں میں انجانے دیس سے آنے والوں کا انتظار شروع ہو گیا تھا۔ ایکسپیڈہشن کے ساتھ یہاں سے لوکل لوگ پورٹر، گائیڈ اور باورچی کی حیژیت سے جاتے تھے۔  گلالے کا باپ بھی گائیڈ تھا۔ ان ہیبت ناک پہاڑوں کے کسی شگاف میں اس کی قبر تھی۔ لیکن کورفی والوں کا بہت حوصلہ تھا یا شاید ان کی مجبوری بہت طاقتور تھی۔
اس دفعہ پرتگال، اندلس اور عراق سے کوہ پیماہ آئے تھے۔ اونچے لمبے مرد اور گوری چمکدار آنکھوں والی عورتیں۔ آلے یہ اتنی دور سے آتے ہیں، پہاڑ چڑھنے اور ھم پاس رہتے ہوتے ہوئے بھی اوپر نہیں جاتے۔ گلالے ہنس کے کہتی تو آلے دہل جاتی۔ وہ گالالے کو بتا نہیں سکتی تھی کہ سہاگنوں کو ان اونچے دلکش پہاڑوں سے کس قدر نفرت ہوتی تھی، جن میں موجود شگافوں میں نجانے کتنی آنکھوں کے روپہلے سپنے سو رہے تھے۔ ان سرپھرے کوہ پیماوؑں کے ساتھ اپنی زندگیوں کے سرمائے بھیجتے ہوئے کیسے دل ڈوبتا تھا ، وہ گلالے کو سمجھا نہیں سکتی تھیں کہ ابھی گلالے کی آنکھوں میں خواب بستے تھے۔گرچے ان خوابوں کی عمر مختصر تھی مگر وہ سفاکی سے ان کا گلہ نہیں گھونٹنا چاہتی تھیں۔ ایک دن گلالے خود سمجھ جائے گی۔
اس ٹیم نے گاوؑں میں مکانوں سے کچھ فاصلے پہ اپنے خیمے نصب کیے تھے۔ وہ بہت تھکان والے سفر کے بعد کورفی پہنچے تھے۔ ابھی کچھ دن یہاں ٹھہرنے کا ارادہ تھا۔ وہ بہت زندہ دل لوگ تھے۔ گاوؑں کے لوگوں سے ملتے تھے۔ رات کو خیموں کے بایر الاوؑ جلا کے اپنے اپنے وطنوں کے گیت گاتے تو کورفی کی فضا جھوم اٹھتی تھی۔ جواب میں گاوؑں کے لوگ بھی اپنا رقص دکھاتے اور اجنبیوں سے داد وصول کرتے تھے۔ ان کا ایک آدمی اپنے ساتھ بڑا سا کیمرہ لایا تھا۔ جب وہ تصویریں بناتا تو گلالے اسے چھپ کے دیکھتی، لیکن اجنبی بہت ہوشیار تھا۔ ایک دن اجانک سے گلالے کو بڑے پتھر کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے پکڑ لیا۔ گلالے کھسیانی ہنسی ہنسنے لگی، اپنی حرکت پہ شرم آئی تو گلابی گال تھوڑے اور گہرے ہو گئے۔ اس روز اس نے اجنی سے باقاعدہ دوستی کر لی۔ اس کا نام میر جمال تھا۔ عراق سے آیا تھا اور اپنے نام کی طرح خوبصورت تھا۔ گلالے اس کی ہر حرکت اور بات غور سے دیکھتی تھی۔ اس ٹیم کےساتھ گزارے تین دن گلالے کی زندگی کے بہترین دنوں میں سے تھے۔
جس دن ٹیم نے واپس جانا تھا، اس دن گلالے بہت اداس تھی، پر کورفی والوں کی یہی زندگی تھی۔ ہر سال وہ اجنبیوں کو مہمان کرتے تھے اور چند دن کی رفاقت کے بعد بچھڑنے کا موسم آ جاتا جو تمام حیات پہ محیط ہوتا تھا۔ یہاں سے جانے کے بعد نجانے کون کون کتنے دن تک کس کس
کو یاد کرتا تھا، کون جانے ۔ ۔ اس رات سب جلدی خیموں میں چلے گئے تھے کیونکہ انہیں کاذب کے وقت نکلنا تھا۔ گلالے نے اس رات خواب میں بس جدائی دیکھی۔ بہت بے چین رات تھی۔ آلے سے اسے یوں کروٹیں بدلتے دیکھا تو اٹھ بیھٹیں۔ کیا ہوا گلی؟ نیند نہیں آتی کیاَ؟
آلے بہت بے چینی یے۔ لگتا یے کچھ کھونے والی ہوں۔
دعا پڑھو گلی، اللہ خیر رکھے گا۔
آلے بھول گئی تھیں کہ اللہ ہمیشہ خیر رکھتا ہے ، شر تو بندے کا کام ہے اور بندے کو اللہ کے قیامت تک مہلت دے رکھی ہے۔
کورفی کی وہ صبح بہت غضب کی تھی۔ کہرام برپا تھا۔ گلالے پھٹی پھٹی آنکھوں سے سفید برف پر جا بجا خون کے سرخ دھبوں کو دیکھ رہی تھی۔ خیمیں اتارے جا چکے تھے۔ ۱۱ لوگوں پر چادریں ڈال کر ان کے وجود کو ڈھانپ دیا تھا، ان کے بس میں اور کچھ تھا بھی نہیں۔ آلے یہ کیا ہوا؟ گلالے نے بہت روتے ہوئے آلے کے گلے لگ کے کہا۔ اس نے زندگی میں ایسی بربریت، ایسی سفاکی نہیں دیکھی تھی۔ وہ ڈر گئی تھی۔ میر جمال کا مسکراتا اس کی نظروں سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔ اور اس بھورے بالوں والی پرتگالی کا گیت ، اور اندلس کا وہ جوان جو آخری رات بھی ہسپانوی زبان میں سب کو الوداعی نغمے سنا رہا تھا۔
کیا جب رات بے چینی سے گلالے کروٹیں بدل رہی تھی  تو کیا اس لمحے موت میر جمال کے سرہانے کھڑی ہو گی؟
گلالے اس پتھر کے پیچھے چھپ کے بہت روئی۔ اسے لگا شاید اس بار پھر میر جمال اسے ڈھونڈ نکالے گا اور ہیستے ہوئے اپنے ساتھیوں کو گلالے کی شرارت سنائے گا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
آرمی کے ہیلی کاپٹروں میں بہت سے لوگ آئے۔ ان لوگوں کو کاندھا دینے جن کا خواب تھا کہ وہ دنیا کی بلند چوٹیوں کو اپنے پاوؑں تلے روندیں۔
اس کے بعد کورفی کے لوگوں کا امتحان شروع ہوا۔ وردی پہنے لوگ آ کے سوال پہ سوال کرتے رہتے۔ کورفی کے معصوم لوگ گم سم کھڑے رہتے۔ ان کے چھوٹے سے گاوؑں میں کب کیسے یہ سب ہو گیا، انہیں معلوم نہیں ہوا۔  
اس بات کو تین دن گزرے تھے، گلالے اب تک روتی تھی۔ خیموں کے پاس خون کے دھبے اب مدھم ہو گئے تھے۔
آلے ۔ ۔ ابھی سورج ڈھلنے میں کچھ دیر تھی کہ گلالے بھاگتی ہوئی آئی۔ پھولی
ہوئی سانسوں کے درمیان بمشکل بولی: یہ ملا ھے مجھے ، وہاں خیمے سے ذرا دور ، برف میں۔ ۔ ایک گلے میں ڈالنے والی مالا تھی۔
آلے کس نے مارا یے کوہ پیماوؑں کو؟ بتاوؑ نا ۔ ۔ کیا اسے رحم نہیں آیا؟ آلے پہاڑ پار والے بادشاہ کو کیوں نہیں بلاتے؟
اتنا بڑا ملک یے اس کا۔۔ وہ ۔۔
۔
گلالے ۔ ۔ خاموش رہو ۔ ۔ جانتی ہو پہاڑ کے اس پار کوئی سفید محل نہیں ہے، کوئی ہلکے گرم پانی کی ندی بھی نہیں بہتی، 
گلالے وہاں اس دیس یہ آسیب ہیں۔ ایسے بے رحم جو پہاڑ کے اس بار بسنے والوں کا نہیں سوچتے۔ ۔ گلالے یہ لوگ جب کھانا کھاتے ہیں تو ان کے شعور کے کسی تاریک کونوں میں بھی برف میں ٹھٹھرتے بےحال لوگوں کا خیال نہیں آتا۔ یہ کوہ پیماہ اپنے ساتھ ھمارا رزق بھی لاتے ہیں تو بتاوؑ گلالے ، کبھی کوئی رزق پھینکتا ہے؟ تم نے دیکھا یے کبھی کورفی کے لوگوں کو کھانا ضا ؑع کرتے ہوئے؟ 
پھر یہ کیسے ہو گیا کہ اچانک ہی کورفی والوں نے اپنا رزق اور رونق کو قتل کر ڈالا ہو؟ دراصل تو سوال یہاں کے لوگوں کوکرنا چائیے ۔ سالہا سال سے محفوظ سیاح کورفی کے برفیلے پہاڑوں میں کیسے اور کیوں مار دیے گئے؟

اب سو جاوؑ گلالے اور بھول جاوؑ کہ پہاڑ کے اس پار کوئی دنیا ہے۔ میر جمال کو بھی بھول جاوؑ۔ بس دعا کرو کہ اللہ دنیا کی
 لوگوں کے دل سے پہاڑوں کاعشق نہ نکالے۔۔۔ اور اگلے سال اور اس سے اگلے سال برف کے یہ گاوؑں پھر سے آباد ہوں۔کسی اور دیس کے نغموں سے ، سفیدی پر کسی اور نگری کے رنگ نقش ہوں ۔۔دعا کرو گلالے کہ کورفی آباد رہے ۔۔
 گلوگیر لہجے میں کہتے ہوئے آلے نے گالوں پہ پھسل آنے والے آنسو آہستگی سی پونچھ ڈالے۔گلالے ان کی بات سنتے سنتے نجانے کب سو گئی تھی۔ اچھا تھا، اس کی آُخری امید ٹوٹی تھی، اس کی دور جھیلوں سے آباد سلطنت اجڑی تھی۔ گلالے کو ابھی سنبھلنے میں وقت لگے گا۔ ۔ بس کچھ وقت ۔۔  

Saturday, 29 June 2013

Tourism in shreds!

Since Afghan war in late 1980s, Pakistan has been a front line state for terrorism. The nation questions in 2013, about the consequences of the acts of the agencies, supreme powers and top management, done years ago. It's sad that the people, whose fate was decided decades ago have remained oblivious for so long. The corrupt system took advantage of this naivety and brought the situation to such an extreme where there is no reverting back. 
Almost every sector of the economy has been hit by this wave of terrorism but the sector for which the heart bleeds is tourism. Tourism is the industry that not only benefits the whole nation but it is the reason, so many people earn their livelihood in places, where there are no other opportunities. All year long. the natives of far away lands, wait for the sun to shine on their frozen lands, so that birds may chirp again and give them the good news of foreigners' arrival. The newcomers bring life , color and joy to those areas that remain isolated from the rest of the country for many long and cold months. 
Its such a shame that the heartless people in power destroyed a whole circle of life for the sake of nothing. We are all aloof , who wins in this situation? 
The brave mountain lovers, who wouldn't stop anyway, make their way to the northern areas of Pakistan but the recent killing of 11 tourists at Nanga Parbat base has shaken everybody badly. At what height and what depth will the enemies go to destroy this land of pure? The innocent people of Diamer, Bonernala, Askole, Chilas and many more villages must be bewildered at the brutal happenings. They must be thinking how can a man be so heartless, so cruel. The ones living in areas surrounded by huge cold mountains, have hearts of gold and innocence of hares. Why take away their hopes, their lives, their income, their joys?
Also, its a big unjust to the people who dream to climb the peaks and mountains. Who have this love flowing in their blood and who live for it. Taking the chance away from them to look at the nature in eye, how fair is it!? 
Pakistan's government should give this a serious thought. May be when you are sitting in an expensive car and travelling on the roads of Islamabad, you don't realize this as a problem but once you start trekking on a trail leading to a giant structure, you forget about the beauty and luxuries that money can buy. Its just you and the nature.
The resources we have today, are unlimited but the time to secure them is very limited.
Its high time to wake up and smell the coffee!

Monday, 10 June 2013

So yesterday

I was into this guy since forever. I know this sounds a bit too cheesy but all through my freshman year I just stared at him from behind the pillars and statues, never finding enough courage to walk up to him and blurt it out.  No, I am not a chicken, I am just… careful!
OK, fine.. maybe I AM a little scared but ..hey, it’s just  normal to be a bit of a chicken! L
He was in the football team. I have never been a football fan but I went to each and every match he played, JUST to cheer him.. Not that he knew I was there cheering for him but still for my own satisfaction or rather the satisfaction of that stupid love struck girl in me. Whatever! I was there anyway.   
And the strangest thing is that he never noticed my obsession. He never acknowledged the coincidence that I would just happen to be everywhere he went. It was like I don’t exist, which made me feel ummm invisible.
One day, my best friend Jesse came up to me with an offer, nnaaaahh, not to go out with him, he would rather swallow his toe than do that. He is my best friend since kindergarten. He asked me to sing for him. I mean actually sing for him. U know where you have all the people playing instruments and the music papers are arranged and a mike and a recording.. ummm yea, so you have an idea now..  *clearing my throat* so yeah, he came and asked me to sing which was very surprising because Jesse usually really loves to shut me up.
I agreed of course. I mean I was so busy with my term papers and all but Only because of jesse who insisted vigorously that I sing, I accepted his offer. I wasn’t interested otherwise. Who wants all the fame and papparazi? And people asking for your autographs and you get to wear those awesome designer clothes and get invited to the Oscars.. yaayyy..  I honestly did it for jesse only.  
By the time I entered my sophomore year, I was over  the initial shock of my university life and was very much back to my normal self who didn’t scare people off with expressions and vocabulary and not to mention sense of humor and failed attempts to look cooler than an iceberg.
I had died a lock of my hair in blue which suited my brunette hair. My signatures style was pretty much back and I felt totally at ease.  Jesse and me were having a great time doing all the music stuff after school. My grades were going very good, I loved my subject, my teachers loved me, life was great.
It was a nice summer day, I was wearing my favorite pink trousers with the white shirt which said ‘I am the princess of everything’ ..  haha.. I know a bit too much but who cares. I was walking down the hallway towards the library when out of nowhere that cute guy appeared. Oh did I mention his name? it was Micheal.  Yes, Micheal came right out of nowhere and stood right infront of me and gave me his best smile which melted my heart like chocolate and of course I pretended not to recognize him when in real I was about to tap dance. ‘yes?” I asked with a straight face which was the most difficult thing to do.
‘Maggie? Is it?”  he flashed that smile again. Gosh!
‘yes.’
‘ how are you  Maggie?’
‘M fine. Sorry but do I know you?”  YES, my heart screamed. ‘He is the one you dream about, remember?’
‘ Me?’ he sounded a bit shocked which was understandable because everybody in the campus knew him. ‘Oh yea, sorry. My name is Micheal. Micheal kepner.’
‘ Oh what can I do for you micheal?’ my innocent smile . he stared at me for a second and said ‘I … was just wondering what are you doing this Saturday?’
‘OH MY GOSHHHHHHHHHHHHHH!!!!’ My insides screamed with such intensity that I suspected that he would hear them talking to me which would sound really creepy.
‘I am free , actually’ I replied very calmly.
‘Great.  So how about ummm going to movies and grabbing a bite?’
‘sounds good.’
‘Great. Pick you at 8?’
‘sure.’
And as he went in the opposite direction, I snapped out of that state and realized what had actually happened. He asked me out. Micheal asked me out!
Where’s my stupid phone, I got to tell Jesse… but of course Jesse is at his stupid job. I left him a message.
My first date with Micheal went great.  He was actually a very nice guy.  I loved him, I mean I loved him even before he asked me out but now I loved him differently.. Think of it as my level 2 love. A bit more intense.
And this romance could have gone on forever had Micheal not started dropping off hints. Urrgh, as much I am open and all, there is this phobia. I am sure it has no name because its undiscovered mainly due to the fact that only I have it in this whole world and I haven’t told anyone yet.  Iets just say that I am allergic to proximity. I mean too much of it.
Especially when it’s asked for repeatedly and too soon and from the person I really like. It annoys me. And I discussed it with Jesse. He totally agreed with me. It really helps to have his opinion in life because that makes me feel so un-freaky. I mean , two people can’t be wrong about one thing, right?
At the same time, the album me and jesse had recorded.. it went viral. People actually listened to those songs over which I insulted jesse so much. They sounded dud at that time, literally. I am sure, the success was all because of my magical voice but of course I didn’t take all the credit. Jesse deserved 5%. After all, He convinced me to sing.
That year was so happening for me and I was so happy. Nothing could have been better than this. It was my birthday and I was invited to Michael’s parent’s small shack for a special celebration. He had arranged a party just for me. I was still with him, keeping him at a hand’s distance. I really liked him.
Everything was perfect until I reached with the limits of the front porch, from where I could just listen to every word Micheal was saying to his friend. The invisible guests had already rung a bell but I had a little hope in me that they’d be hiding in the corners waiting to surprise me with the balloons and all but I guess Micheal actually meant it when he said I’d be surprised.
I didn’t go inside. Of course, I wasnt about to walk into a trap. Do I look stupid?
I returned and he kept calling me but I didn’t receive any. I was with Jesse, crying my eyes out. I felt so insulted. For the first time in my life, I felt like a piece of flesh and not a human. It took me days to snap out of that misery. Jesse struck by me, encouraging me to let it pass. But how could I? I loved and respected a person and all along he kept thinking about me as a commodity. The horror of the plan was still in me.
And the fact that he kept calling me, telling me that I was the one who broke his dreams . The fact that everything was shattered because of me. I was the reason that it hadn’t worked out and that he loved me!
After a few weeks, we had our first musical evening. Once again Jesse convinced me to do it saying that my time was too precious to be wasted like that. That I deserved better and that I shouldnt let a scumbag destroy me. Jesse was right.
At the night of the show, I felt confident but a part of me wasn’t ready. I concealed that part.
The show was going awesome. The crowd was amazing and the response was overwhelming. I was enjoying all the attention when from the stage I saw Micheal, making his way to the dance floor with a blond girl. What a nerve!
I kept my cool and finished the song. After that I went to Jesse and let him in on my plan. The un-ready part of me, was fuming now. I had reached my threshold. Payback time.
After a minute, when the music started, I spoke in the mike
‘This song is dedicated to the person I respected, who  turned out to be a creep. I loved him and he knew it and didn’t respect that. And right now he is standing in the crowd with another girl.’ As I said those words everyone turned and looked directly at Micheal. We were together, it was an open secret. I saw that blond girl taking two steps back from him. It made me smile.
And I sang:
You can say you're bored - if you wanna
You can act real tough - if you wanna
You can say you're torn
But I've heard enough

Thank you... you made my mind up for me
When you started to ignore me
Do you see a single tear
It isn't gonna happen here
At least not today, not today, not today
'cause

If you're over me, I'm already over you
If it's all been done, what is left to do
How can you hang up if the line is dead
If you wanna walk, I'm a step ahead
If you're moving on, I'm already gone
If the light is off then it isn't on
At least not today, not today, not today”


Jesse hugged me, re assured me. I wiped off my tear!
The show was a success!
Some people are so not worth all the attention in life because no matter how hard you try they will always stab you in the back and no matter how much u want to keep them, they will find a way and slither out. That’s in their nature. So when u come across any such person, don’t take the blame. Shield yourself, believe in yourself and don’t stagger! Some people are like infection. They invade your body, occupy it for some time and eventually leave you for good!
And what happened next? With Jesse around, guess it yourself. J


Monday, 3 June 2013

Teri meri ana last episode!

Mehru ne koi jawab nhi dia.. is liye nhi key woh jawab dena nhi chahti thi balkey us k pass jwab tha hi nhi.. us k salam ka bhi nhi... woh sar jhukaye khamoosh baithi rahi... bht mutazad ehsasat they us waqt...
Us ko koi dilchaspi nhi thi k kia waqt ho raha hai, ghari ki raftar aaista ha ya taiz, wo kiss raste se jarey hain... us ne tab bhi sar na uthaya jab ghaarri ruk gai. us ne sunna k front door khol k Moiz neeche utra hai.. Taqreeban 10 sec k bad us ki side ka darwaza khula to us ne ik gehri sans li aur neeche utarne laggi gharri se..bahir dekha to ik dam khatak k ruk c gai.. woh expect ker rahi thi k wo Wedding hall aye hoon gy likin yeh to track 5 tha... Monal jane k liye us ka fav track.. jahan ussey Moiz ne barasti barish men ik harra patta thama k ussey sari zindagi khush rakhne ka wada kia tha.. jahan pehli bar us ne apni zindagi ki baazi lagane ka irada kia tha, jahan us ne ehtiyat ka hisaar tor k ik ajnabi ki baat manni thi... Moiz kiun us ko wahan laya tha? Woh bhi us ki baraat k din.. jab wo kissi aur k liye banni sanwri hoi thi... Mehr ko dukh se barh k kuch mehsus ho raha tha... Moiz itnaghatya ho ga k yun blackmailing kare ga, mehru yaqeen nhi kern chahti thi likin sab waqiyaat Moiz k khilaaf they...

'Mehru...." bohat narmi se, bohat pyar se Moiz ne mehru ko pukara.. ik lamhe ko mehru ko laga jaisey waqt kabhi itna bereham huwa hi nhi tha.. sab waise hi tha jaisa us ne khuwab dekha tha.
Mehr ne Moiz ko dekha to us ne hath barha dia..us ki ankhoon men dekhtey huwe Mehr ne uska hath thamaa aur gharri se utar ai.. Ussi hut k andar ab ik bench ka izafa ho gaya tha.. Lakri  k bench pe us ne Mehru ko bithaya.. aur khud ghutnoon k ball us k samne baith gaya..
" I know you hate me... u should" Us k samne baithte huwe Moiz ne baat shuru ki...
Mehr ne dekha k us k shave barhi hoi hai, ankhun men halki c surkhi thi aur lehjey men thakaan thi.. Mehr ko ronna anay laga.. yeh kaisa mazak tha, us k sath? Dil tha k phir iss shaks ki baat pe yaqeen kerne ko tayar ho gaya tha.. us ko yaqeen tha Moiz jo bhi kahey ga jhoot nahi ho ga..
" I hate myself too Mehru.. a lot .. for not doing anything for you, for us. Mujhe iss lafz 'majboori' se bohat nafrat hai, likin men phir bhi bohat majboor ho gaya tha.. and don't ask me anything.. the less you know the better.. bus tum yeh socho k Moiz bohat bura tha, itna bura k Allah ne us ko saza di aur Mehr se durr ker dia"
Dono hath men chehra chupa k woh ronney laggi to Moiz ne uski kalaii thamii.. "nai Mehru, roo nai.. tum roo g to mujhe bohat taklef ho g.. "

Hath chehre se hata k us ne ansu bharri ankhoon se ussey ko dekha .."Moiz kiun?"
" Sawal nahi karo Mehru...Woh challa gaya hai sab..."
kuch dair khamoosh rehne k baad us ne kaha.."Acha ansoo saaf karo, dekho make up kharab ho raha hai.. Aj to tum waise sacchi ki princess lag rahi ho.. " us ki baat sun k Mehru halka sa hans di.. Moiz k sath kabhi awkwardness nahi ho sakti thi... Us k sath sab theek tha.. hamesha se..

"Acha suno Mehru... ab rona nahi.. Bilal is a good person.. mene khud pata kerwaya hai us ka.. tum khush raho g.. Dont hold yourself back ever.. Love him..
Mujhe lagta hai Mehru k tum jitni achi pehle thi ,ab us se ziada achi ho gai ho.. Agr tum ne mujhse kuch bhi acha seekha hai to us ko implement kerna apni zindagi men. "
Aur mehru ne Moiz se bohat kuch seekha tha.. Mohabbat kerna, Mohabbat nibhana , shukar kerna, Dosrun k liye sacrifice kerna.. woh kaise bhool sakti thi...
"Men next week Umrah pe ja raha hun... tumare liye dua kerne .. tum ne kabhi udas nahi hona..
Aur sunao Mehru, zindagi men kabhi koi pareshani mushkil ho..tumien kissi cheez ki zaroorat ho mujhe ik call kerna.. Kabhi koi dukh akele mat sehna Mehru... Promise me!!"
Moiz k pass kehne ko bohat kuch tha.. wo sari umer Mehru ko samne bitha k us se baatien ker sakta tha...

"Ajao ... dair ho rahi hai..."
ik dam wo uth khara huwa..
_______________________________________________________________________________

Wedding hall k samne us ne garri rokki to us ki sab cousins dhulhan ko receive kerne kharri thi.. Mehru ne utarne se qabal suna k Moiz ne us ko bohat araam se "Fi amaan Allah" kaha hai..
Aj Moiz ka har lafz sacha tha likin sab se ziada Mehru ko us baat pe yaqeen aya jo Moiz ne nahi kahi thi.. Moiz ko mehru se mohabbat thi.. waisi hi jaise Mehru ne mehsus ki thi...

_______________________________________________________________________________

Nikkah name pe dastakhat kerte huwe Mehru ko kuch feel nahi huwa.. Likin ruksati k waqt wo Baba k galley lag k bohat roi... Yeh us ki apni zinadagi ka iktitam tha.. is k baad wala safar wo tha jis ka faisla Bilal ko kerna tha ...

________________________________________________________________________________

1.5 years later:

"Mohid roo raha hai Bilal.. please ussey uthaen men bus aa rahi hun" Mehru ne apne bete k rone ki awazz suni to kitchen men se awaz lagai.. Sunday tha, iss liye Bilal ghar pe hi nazar aa raha tha..
"Yaar biwi.. tum kitne kaam kerwati ho mujhse"
"Tauba Bilal... kissi k samne na keh dijiye ga.. Log mazak nahi samajhte" Mehr hansi..
"Hain? likin mene mazak kab kia?" Bilal ne masnoi hairat se jawab dia..

Mehr khush thi.. Bilal waqai bohat acha tha. us ka bohat khayal rakhta tha..Us ko waqt laga tha adjust honey men likin bilakhir zindagi ik dagar pe aa gai thi aur khas torrr se Mohid k baad to ussey lagta tha jaise ab tak ki zindagi khalli hi us ki... Olad itni hi mehboob cheex thi..

Mia ka phone aya tha .. agle hafte woh log Haveli ja rahe they..Moiz aa raha tha.. Us ne Canada men apni pasand se shadi ki thi.. Mia ko aj bhi us se chir hoti thi, bohat bura lagta tha ussey Moiz. Mehru ne bhi kabhi us ki ghalat fehmi durr kerne ki koshish nahi ki.. Jo kuch tha wo kabhi kissi ko samajh anney wala nahi tha...
Mehru ko ab Moiz se mohabbat thi ya nahi, ussey andaza nahi hota tha..
Kuch yaadien ghanney shajar ki tarhan hoti hain.. Jab garmi ki shidat bohat barh jati hai jo hum us shajr  ko talash kerte hain jiss ki chaoon men hum thora sasta lien..  Moiz us k liye aaisi hi ik yaad tha...

Mohabbat paa lene ka naam nahi hai , na hi mohbaat mehdood hoti hai... Kabhi yeh ho jati hai likin agar kerni bhi perjaye to bhi koi muzaiqa nahi ... Koi shahks ap k khayal men rahe to yeh be-imani nahi hoti.. Be-imani to tab ho agar us khayal rah se bhatka de.. jo Na hotey huwe bhi ungli pakar pe seedhe raste pe chalaye , najane us ko kia kehte hain....!

Teri meri anaa 23

Waqt nahi rukta .. na acha aur na bura...
Adhe chand ko dekhte huwe apni mehendi ki raat mehru ne bohat dua ki k yeh raat yaheen tham jaye.. Ik dam yeh shadi nibhani us ko namumkin lagne laggi. Moiz k baad woh Bilal ko kaise apne dil men jaga de g.. Kaise jiyey g un lamhun ko jo us ne Moiz k sang bitane k khuwab dekhe they.. Yeh munafqat bharri zindagi kaise guzarey g woh...
likin lamha lamha ker k woh raat beet gai... Poori raat ik pal ko bhi Mehru ki ankh na laggi... Fajr k waqt woh Mia k bulane pe uthi to us ko bukhar mehsuus ho raha tha.. Naha k Namaz perhne laggi to beikhtiyar us ki ankhoon se ansoo behne lagey.. Ussey laga k woh ALLAH k samne baithi hai.. aur us k ansoo Allah dekh raha hai, us ki awaz sun raha hai.. woh mazeed shidat se roney laggi likin bohat chahne k bawajood bhi wo Allah se koi shikwa na ker sakki... bus bohat rotey huwe us ne sakoon manga, khair mangi.. apni aur us ki bhi jis ne us se apne liye dua kerne ka har haq cheen lia tha..

11 bajey woh parlor k liye nikli... Us ka dil nahi cha raha tha k koi aur us k sath jaye, us ne Mia ko bhi mana ker dia.. Mia us k sath parlor tak aii us ka dress aur jewelry le k aur phir driver k sath wapis aa gai.
Sardiyun men din chotey they aur Islamabad men yun b thand thori ziada ho rahi thi.. Maghrib se pehle pehle rukhsati honi thi..
Ronney k bais us ki ankhien zara sooj c gai theen aur bukhar ki waja se thakaan bhi bohat mehsus ho rahi thi...
Make up karate huwe, jewellary aur lehenga pehentey huwe woh tang hoti rahi.. likin boli kuch nahi..
Red aur Green color k combination k lehengey men make-up aur jewelry pehne jab woh full length sheehse k samne kharri to heeran reh gai.. Ik lamhe ko to woh b khud ko pehchan na pai thi.. woh pyari thi likin iss waqt woh bohat khoobsurat lag rahi thi.. thori sooji sooji ankhoon pe purane tarz ka lamba aur thick eye liner had se ziada suit ker raha tha..
"Mam hum ne aj tak jitni dhulhanien tayar ki hai, i have to say you are one of the best! Masha Allah u are looking very pretty"  Us k sath kharri worker ne kaha to Mehr muskura di.. Pata nahi kiun khud ko dekh k ussey bohat acha lag raha tha.. woh hamesha sochti thi k woh dhulhan ban k kaisi laggi g? What is the best she can look ? aur abhi iss waqt us ko jawab mil gaya tha...Yeh colors kitne uth rahe they us pey.. aur jewelry kitni munfarid si thi.. us ne apne jhumkey ko chu k dekha.. phr zara tehra ho k khud ko dekha , 3, 4 mukhtalif smiles dien , aur ik baar poora ghoom k apna lehenga check kia...
"Mam ur husband is very lucky!" worker ka jumla us k kanoon se takraya to woh thehr gai.. "husband... " bus yaheen aa k sari kahani men twist tha... Apna lehenga sambhal k woh sofey pe aa k baith gai.. Stillatoes pehene se pehle us ne time dekha to taqreeban 3 bajh rahe they.. Us ne sandals pehen  k apna phone nikala aur Mia ko phone milaya .. woh tayaar thi.

________________________________________________________________________________

"Mama....." Mia hall k liye nikalne laggi thi k Mehru ki call aa gai.. Mama ko dhondte huwe wo kitchen wali side pe aai to Moiz ko kharey dekha.. Usey ghussa ata tha Moiz ko dekh k.. us ki dheetai per.. He had a nerve k woh Canada se Mehru ki shadi attend kerne aa gaya tha...
us ko badtameezi se ignore ker k Mia ne kitchen se aati apni mama ko kaha : " Mehr ka phone aaya hai, wo tayar hai. Driver ko bhej dien , ya men challi jaun sath?"
Mia ki baat sun k Moiz ka sara dheyaan udher hi chala gaya halankey k us se pehle woh b Mia ko avoid hi ker raha tha.
" Nai, tum hall jao . wahan mehmaan aa rahe hain. bohat bura lagta hai. Men us k pas bhejti hun kissi ko."
" Ji,," un ki baat sun k Mia murr gai...
"umm Aunty , if its ok,men le aun Mehru ko? " Moiz ne ik lamhe socha aur keh dia..
"aPP... UMMM.. khamkha ap ko zehmat ho g bete."
"Nai zehmat kiun... m free.. men chala jata hun. mujhe address bata dien,"
Un ko maxeed sochne ka moqa diye baghair wo uth khara huwa...

________________________________________________________________________________

' Mehr madam ki gharri aa gai hai." Intercom pe guard ne kaha to mehr aaista se lehenga sambhal k kharri ho gai. Dress bohat bharri tha..
Apni cheexien bhijwa k woh khud bahir aai.. workers us ka lehenga waghera sambhalne men us ki help ker rahi thien..
Mausam bohat pleasant tha.. 3 bajey hi sham sham lag rahi thi.. suraj ki kirnoon men koi tapish na thi... ziada tar asmaan badaloon se dhaka huwa tha aur thandi hawa chal rahi thi.. Bahir atey hi Mehru ko sardia ka ehsas huwa... Us ne garri ka darwaza khola aur araam se baith gai... Dhulhan banna mushkil kam tha..
"Assalam o alikum" Garri ka darwazaband huwa to us ko awaz sunai thi..
woh jo apna pouch aur dupatta set ker rahi thi k ik jhaktey se sar utha k driving seat pe baithey bande ko dekhne laggi.. Us ne bilkul dhehan nahi dia tha k us ko lene kon aya hai... likin jo b tha Moiz dunia ka akhri banda tha jis ko woh iss waqt , yahan expect ker rahi thi!
Shock se Mehru k mun se koi awaz bhi na nikli! 

Sunday, 2 June 2013

Teri meri ana 22

Bilal ka proposal aya tha.. Infact Moiz k Abu hi ne refer kia tha.. Mehrukoun pe pyaar aya .. Woh us ki fikar ker rahe they jab k un k bete ko koi dekhta.. be-hiss aur jhoota ...
Baba logun ne apni taraf se tasalli kerwa k mehru se raye li... us k pass inkar kerne ka koi jawaz na tha.. woh khamossh rahi..
"Mehru agar koi problem ha to ap bata dien." Baba ne ik sham us k sath lawn men walk kerte huwe pocha .
" Nai baba jani.. koi problem nahi hai."
" Phir hum Bilal k proposal ko kia jawab dien"
mehru ne ik lamhe ko socha aur phr araam se boli  "Jaisa ap ko theek lagey baba."
"Woh ache ghar ka larka hai, phir tumare Taya Abu ne kaha hai.. mene har tarhan se tasalli ki hai..Mehru, Betiyaan jitni bhi achi lagien un ko biya k dena hi hota hai.."
Baba un k friend they..hamesha har baat woh Baba se share kerna prefer kerti theen kiun k mama to phir bhi daant deti theen likin Baba .. woh samjahte they.. batate they..
aur phir anan fanan Mehru ki shadi teh ho gai... Us ne bhi samjhota ker lia... Dil ko bhi samjha dia k us sab ko ik khuwab samajh k bhool jaye, jis men kabhi wo kamyab hoti thi aur kabhi nahi..
_________________________________________________________________________________

Moiz ko Mehru ki shadi ki itlah office men milli..Hassan waghera se baat kerte huwe.. Bohat dair woh yunhi khali zehn k sath baitha safaid kaghaz pe lakeerien khainchta raha.. Mehru us ki qismat men hi nahi thi.. wo lakh chahta tab bhi nahi... in guzrey dinoon men usne bus yehi koshish ki k apne ap ko yaqeen dilaye k Mehru men koi khas bat nahi hai... she was just another girl.. aur woh sab ik timely affair tha.. kuch khas nahi...
aur us ne khud ko zindagi men itna uljha lia tha k us k pass baaz ooqat khane peene ka bhi waqt nahi hota tha..
Office k sath sath us ne empolyees k liye offer kiya jane wala koi course bhi utha lia tha..
likin abi abhi mehru ki shadi ka sun k ik dam us ko lga k itne maheenun se wo jo mehnat ker raha tha , wo sab raigaan gai hai.. Ehsas e ziyaan bohat shadeed tha.
Agle adhe ghantey men us ne ik email likhi apne boss ko jis men usne urgent leave mangi aur ik phone call k zarye agle hafte Pakistan k liye apni ticket kerwai.
Us ko Mehru ko dekhna tha!

______________________________________________________________________________

Saturday, 1 June 2013

Teri Meri ana 21

Yeh ehsas k jiss bande ki iss dunia men us ne sab se ziada perwa ki thi. Jiss k liye jan bojh k us ne apne dil men jaga banai thi .. uss k liye uski itni bhi ehmiyat na thi k jatye huwe ik phone ker deta.. phone na sahi, ik msg ker deta.. ussey bata to deta, kuch bhi keh deta... yehi k " Mehru tum mujhe nahi pasand.. men tum se baat nahi kerna chata. Its over." Per khamoosh to na rehta.. us ne Mehru k sath bura kia tha,bohat bura.. wo ussey chor k challa gaya tha.. aur woh bhi khamooshi se... har raat bohat rootey huwe Mehru yehi sochti k agley din jab Moiz us ko phone karey ga, tab woh bhi baat nahi karey g... likin Moiz ne us ko kabhi phone nahi kia , dobara... Moiz ne murr k nahi dekha k Mehru zinda hai ya mar gai hai...

Har waqt hansne wali Mehru, Yun chup ho gai k kabhi koi baat kerta bhi to mukhtasir jawab deti..khud se to woh bohat kam hi koi baat kerti... Ussey bht guilty feel hota tha.. Halankey k koi janta nahi tha likin phir bhi ussey lagta tha k sab ko maloom hai.. sab us ko qasur war thehraien gey k har larki ki tarhan  us ne chance dia kissi anjaan bande ko... woi typical harqat kii.. woh mar k bhi kabhi kissi ko nahi bata sakti thi k yeh sab itna ordinary nahi tha...

"mehru utho!" apne kamre men din k waqt wo chaddar tanne laiti thi k Mia andar aii aur ghussey se boli. Chaddar mun se hata us ne Mia ko dekha.
"kia baat hai mia?"
" tumara sar baat hai.. what the hell is wrong with you??"
"huwa kia hai??"
"Mehru yeh huwa hai k tumien masla kia hai? u know abhi tak kissi ko pata nahi hai k koi baat hai.. sab samajh rahe hain k typhoid ki waja se tum itni kamzor ho gai ho kissi se baat nahi ,kerti likin saari zindagi yeh bahana nahi challey ga."
"Mia , yeh baat nahi hai.. mera dil hi...."
" nahi kia huwa hai tumare dil ko?? toota huwa hai?? please mehr get real.. dat was one stupid incident..Mayb i dont understand but i know k agar kissi ko tumare honey na hone se farq nahi per raha to its not fair to yourself k tum khud ki halaat kharab karo for someone who doesnt care back"
Mehru chup chaap baithi sunti rahi uski baatien... Mia theek keh rahi thi.. iss se pehle k sab sawal karien jin ka us k pass jawab bhi nahi ho ga, us ko normal hone ki try kerni chae..
Insan ko apne dukh kabhi nashr nhi kerne chae.. yeh kamzorri ki nishani hai.. Jo baat dil men ussey dil men hi rehna chae, apne dukh khamooshi se sehne chae.. khud ko dunia k liye tamasha nahi banana chae!

" m alright Mia.. I promise, everythings gonnna be fine. likin iss waqt mujhe neend aa rahi ha. soney do please."
Mia ne us ko mashkook nighahun se dekha to wo hans di.. "pakkaa na!"
__________________________________________________________________________

Phir Mehru ne bohat mehnat ker k apna poorana roop wapis laya.. Mama Baba aur Mia k liye.. aur apne bohat pyare cousins aur ghar waloon k liye jo waqai us ne bohat pyar kerte they.. jin ki neeyat men koi khoot nahi tha aur jin ko Mehru se mohabbat kerne k liye kissi approval ki zarorat nahi thi.

Icecream ki zid kerte huwe, fruit parties, mid night feasts, games arrange kerte huwe, baatien kerte , hanste huwe sab ko yaqeen ho gaya tha k Mehru waqai beemari ki waja se itni murjhai hoi thi...

sab ko mehru ki acting per yaqeen aa gaya tha siwae khud Mehru k ... Roz subha uthte huwe us k dil men ye umeed hoti thi k shyd aaj moiz us ko phone ker dey, har call pe us ko gumaan hota k shyd Moiz ki awaz sunney ko miley aur har raat soney se pehle us k dil men mayoosi ki ramaq hoti thi...
har guzarte din k sath us ka intezar to khatam na huwa tha likin us ne rona kam ker dia tha... Woh ab Moiz k liye rooti nahi thi.. yeh us k bus men tha, likin Moiz ko yaad kerna, us ka intezar kerna.. yeh Mehru k bus ki baat na thi!

Friday, 31 May 2013

Teri meri ana 20

Canada aa k bhi us ka dil kissi kam mien nahi laga .. likin jo shadeed mayoosi ki leyar thi, us en shigaf perne laga tha.. Moiz ko ehsas huwa k maazi per us ka ikhtiya nahi hai likin wo mehru per se apna haq kiun chor raha hai? us ko mehr k liye larna chae. Beshak us k aur Azam sahab k taluqat pehle se na rahe they, aur Canada aaney k baad us ne un ki ik bhi call receive nahi ki thi phir bhi Mehru k mamle men woh un se akhri dafa baat kerne pe tayar ho gaya tha. Us ko is tanhai  men pehle se zaida shidat se mehru ki yaad aa rahi thi. us ka dil cha k us ka number dial ker k dekhe.. wo yaqeenan us ki call ki muntazir ho g.. us ko apna wadaa bhi yaad aya.
"M going to talk to Baba about us."

"i wont give up on her!" us ne dil men socha aur phone utha k call milane laga.

"Hello."  us ki Ama ne phone uthaya. Ik lamhe ko us ka dil chaha k phone kat dey.. phir dil hi dil men apni himat bandhai. " bus ik baar Mehru wali baatho jaye. phir us ka rasta apna, hamara apna"

"Ama men MoiZ .."
"Moiz.... " us ki awaz sun ker hi woh roney lagieen.." kaise ho tum? phone bhi nahi uthaya.. hum pareshan they Moiz.. men bhi aur tumare Baba... bhi"  Baba kehte kehte wo zara hitchkichaen.

"Ama... mera ik kam karien?"
"bol mera putter"
"unhien manaen Mehru k liye.. kissi bhi tarhan" woh Azam khan k liye Baba ka lafz istamal na ker sakka.
" Moiz putter, chor de us ko.."
"Ama.. ap samajhti kiun nahi hain? men bacha hun kia chota?? an perh , jahil hun? berozgar hun? dunia nhi dekhi kia mene? Phir bhi , kissi ganwar ki tarhan behave ker raha hun.. shadi ki ijazat mang k.. what bullshit? Bata dien ap un koja k shadi men Mehru se karun ga aur men dekhta hun k mujhe kon rokta hai.. ap log behsak meri shakal na dekhien, balke men ap logoon se nahimiloon ga zindagi bhar.. Ama pehle wo mohabbatthi, ab zid hai... Khan hun na men b phir.."
ghussey men us k mun men jo aa ra tha wo bole ja raha tha. Abhi aur bohat kuch kehna chata tha likin ik sard c awaz ne us ko rok dia.
"Tum ne apni zid na chori to tum apna kuch nahi nuqsan nahi karo gey Moiz khan, likin Mehru k sath jo men kerun ga us k liye tum khud ko maaf bhi nahi ker sakko gey. Chahe tum ussey le k kahien bhi chale jao.. Yaad rakhna men tumara Baap hun!"
phone men se ab tone ki awaz aa rahi thi.. Moiz gang baitha tha... Koi iss had tak bhi ja sakta hai.. Mehru un k khandan ki beti thi likin us ko tabah kerna jaise koi baat hi nahi thi. Saari zindagi US, Canada men rehne wala waqai Pakistan k wehsi ma'ashrey ko nhi pehchan sakta tha. Woh jo humanity, equality, love and peace ka sabaq perta raha tha us ko inteqam, anaa aur nafrat ki andher nagri men rasta nahi milna tha.

Mathey pe chamaktey paseene k qatre us ne sleeves saaf kiye. Pehli dafa sahi ma'nun men us ko Mehruki fikar hoi.. Agr wo mehr ko nahi chorey ga , wo waqai us ka baap mehr se inteqam le ga.. Moiz ko yaqeen tha k aaisa kerna un k liye kuch mushkil nhi hai. Yeh khayal hi k mehr k sath kia kuch ho sakta tha, Moiz ka dil dehlane ko kaffi tha...

_________________________________________________________________________

"Mia, mien Moiz ko phone ker loon?" Mehru bechain thi... Moiz koi bhi baatkiye baghair kaise wapis Canada chala gaya?
"Nahi...." Magzine perhte huwe Mia ne jawab dia.
"kiun nahi ??"
"Mehru, us ne nahi kia matlab he doesnt care. to tum bhi na karo."
"Aisa nahi hai Mehru, i know he cares.. i know tumien nahi samajh aaye g per woh bohat different hai."
"Mehru please!!| Mia ne ghusse se magzine band kia. " yeh khushfehmi sab larkiyun ko hoti hai k jiss se un ko pyar hota hai wo koi greek god hota hai. sab ik jaise hote hain. time pass."
Iss qadar sakht alfaaz pe mehru ki ankhoon men ansooo aa gaye aur wo chehra dono hathun men chupa k sisakne laggi.
"Beshak aaisa hi ho per wo ik baar apne mun se keh dey ga to men khud us se baat nahi karoon g, i promise. bus mujhe ik baar pata chal jaye .."
Mia ko us pe tars aya. woh aaisi to nahi thi..
"Acha roo mat tum call ker lo."
Mia janti thi k pichla poora mahina us pe bohat bharri guzra hai. kissi pal ussey chain nahi aa raha tha. Har awaz pe ussey Moiz k phone ka gumaan hota tha likin us ka intezar , intezar hi raha.
Mia ki awaz sun k us ne jaldi se ansoo ponchey aur call milane laggi.. 1, 2 , 3 baar try kia likin Moiz ne phone nahi uthaya.. us ne msg kia , shyd soo raha ho ga ya kahien busy ho ga...

Agle kai din tak wo waqfey waqfey se Moiz ka number try kerti rahi.. na to us ne us ki call receive ki, na msg ka jawab dia aur na hi call back ki... Mehru ko yaqeen nahi a ra tha k wo jitni timepass, flirt aur 'just for fun' wali baatien sunti thi, ab yeh sab us k sath ho raha tha.. Us ko apna app 'used' mehsus huwa... bohat girra huwa, bewukat!
us ka kissi cheez pe bus nahi chal raha tha siwae apne app k.. aur Mehru apne ap se nafrat ker rahhi thi.. behad, betahasha!

Teri meri ana 19

Murtaza ne gaoon se anay k baad , hazarun qasmien khaen k wo beqasur hai.. woh kaise mustafa ko mar sakta hai.. koi us ki baat sunney ko tayaar na tha.. wo rota raha ..bilakhir ik roz apni maa ka hath pakra aur Abba k kamre men challa aya..
" Aba ji, yeh meri saggi maa hai.. men iss k sar ki qasm kha k kehta hun men ne Mustafa ko nahi qatl kia.." aur phir wo rehl men rakha Quran utha laya " aur yeh ALLAH ka pak kalam hai, men iss ki qasm kha k kehta hun k men begunnah hun. aur men jhoot boloon, to mujhe dunia o akhrat men kahien jaga na milley"

Woh yeh sab na bhi kehta tabbhi sab ko us ki begunahi ka yaqeen tha , wagarna kiun apni matti chor k woh yeh jilawatni qabool kerte. Wo jante they k kiss ko zameen ki haws ne itna andha ker dia tha k woh saggey bhai ka khoon kerwane se bhi baaz nahiraha.. likin unhun ne ye mamla Allah per chor dia tha.Unhien yehi behtar laga k apni oolad ki jaan bacha k wo gaoon se nikal aaen.

________________________________________________________________________________

Iss sab baat k doran Moiz sar jhukaye baitha raha..ansoo us ki ankhon se tapakte rahe.. ankhoon ki lali aur dil ka bojh kuch aur barh gaya tha.. ussey is bat se koi garz nahi thi k us k baap ko kiss ne mara tha, ussey bus yeh pata tha k khasara us ka huwa hai.. paida hone se pehle hi woh apne baap ko kho chuka tha.. us ko samajh nhi aai k us ko us shaks k kitna rona chae jiss ko us ne kabhi dekha nahi , mehsus nahi kia.. jis ko wo janta hi na tha aur aj se pehle tak woh woh jiss k honey , ya na hone se beperwa tha...
aur phir itne saalun baad ik dafa phir iss anaa ki jung men wohi haar raha tha..Mehru ko wo chahta tha likin yeh wo log nahi hone dien gey.. woh log jin k liye us ki koi ehmiyat nahi thi, jin k liye un ki anaa aur us ki jeet eham thi... unhien farq nahi perta tha k woh Mehru se shadi kerta hai ya nahi.. wo Mehru  se pyar kerta ha ya nahi...un k liye shadi k liye yeh mohabaat koi zaruri juzv nahi tha.. shadi kissi se bhi ho sakti hai... zindagi hi to guzarni hai..

_________________________________________________________________________________

Pora din bahir guzarne k baad, Moiz raat 1 bajey ghar ayyaa.. Us ko theek thaak dekh k us ki maa ne shukar ka kalma perha.. likin moiz ko filhaal kuch mehsus nahi ho raha tha.. haan usey tars aa raha tha apni maa pe jo bechari bekhabri men kissi sazish ka shikar hoi thi likin us k jazbaat itne mutazaad they k wo chak bhi unse hamdardi nahi kr sakaa.
chup chaap packing kerta raha ...wo jald az jalz iss jaga se wapis jana chata tha.. ussey wehshat ho rahi thi .. ussey laga agar woh ik din bhi yahan aur rukka to us ka dam ghutt jaye ga!
tamam waqt ussey mehru ka khayal aata raha .. us ko phone kerna chae.. us se baat kerni xhae, us ko batana chae.. she deserves to know, likin moiz k andar ik ounce bhi himat nahi thi k wo mehru ko ik lafz bhi bata pata.. us ne apne zehn se har khayal jhatak dia.. us mazeeeed kissi taklef bardasht kerne ka mutamil nahi ho sakta tha.
agle din 11 bajey ki flight se woh wapis canada chala gaya.
_________________________________________________________________________________


Teri meri ana 18


Now read:

Woh Garmiyun ki ik tapti dopeher thi.. poora gaoon sunsan para tha. Suraaj aag barsa raha tha, piyasi zameen sulag rahi thi.. dhoop ki shidat se ghabra k insan to insaan charind parind bhi apne maskanoon men chuppey baithey they...
Aise men 2 nau-umer larkey garmi se beniaz, ik darakht k neeche baithey baatien ker rahe they. Chaudary Hashim ki oolad men se bus yeh 2 larkey they jin ki badolat poorey gaoon men ronaq thi. In ki har ik se banti thi, har baat ka inhien maloom hota tha.. Saggey bhai na hotey huwe bhi un ki mohabbat misalai thi. Koi un ko cousins kehta to foran us ko darust kerte they " Cousin nai, bhai hain hum!"
Saaf dil, Saaf neeyat k sath har waqt logoon ki madad ko tayaar ye na sirf apne khandaan men pasandeeda they balkey har koi in se ik c mohabbat kerta tha.

"Murtaza aur Mustafa to mere khandaan ki shaan hain" Chaudary Hashim un ko dekh k fakhar se kehte..
Waqt guzarta gaya aur dono gaoon k school se matric ker k college mien admission lene lagey.Mustafa bohat liaq tha, us ne engineer banana tha jabkey Murtaza bus wajbi sa tha perhai men. lihaza Mustafa Lahore perhne chala aya aur Murtaza ne gaoon ke college men dakhla le lia. 
2nd year k exams k baad mustafa ne engineering college men admission lia jab key murtaza ne BA kerne ka irada kia. Murtaza ka taleem ki taraf  koi rujhan na tha.. us ko bus apni zameenien pasand theen, us ne gaoon ka chaudary banana tha.

Mustafa university k dosre saal men tha k ik sham, jab woh gaoon aya huwa tha , us ki ama ne us k rishte ki baat chair di. 
" Amma kaisi baatien ker rahi hain?" abhi adhi baat amaa k mun men hi thi k mustafa sun k uchal para.
"aye haye... aaisa kia keh dia mene. umer hai ab tumari."  amma bura maan gaen.
" kon c umer????" mustafaka mun khule ka khula reh gaya.
" bus mene dekh li hai larki..." 
aur phir mustafa ne bohat na na ki.. apni perhai ka bahana banaya,mohlat mangi likin jab wo 2nd year k paper de k aya to us ki baraat tayaar kharri thi.
Murtaza ki khushiyaan dekhne wali theen.. har ik kaam us ne apne haathun se kia tha... aur us ki baraat k agey agey bhangrey daalta huwa wo beinteha khush tha.

6 months later:
" mustafa aya hai.. tum se nahi mila" ik sham jab murtaza ghar wapis aya zameenun se to us k barey bhai ne kaha.
" Nai,,, kab aya.. mujhe nahi mila." chapliyan utarte huwe us ne kaha.
ik, do ghantey baad zara sham dhalli to wo mustafa se milne ghar gaya to wo dhere pe gaya hwa tha. murtaza us k peeche peeche wahan gaya.
Abhi wo morr pe tha k usne dhere k darwaze se kareem ko nikalte dekha. Kareem un k gaoon k kamiun men se tha. likin us ki ooqat na thi k mustafa k dhere pe ata. issi baat ko sochte huwe murtaza dhere pe aya. andar dakhil hotey huwe us ne dekha mustafa wahaan sar jhulaye  baitha hai.. us ki amaad pe bus ankhien utha k ussey dekha. murtaza ko hairat hoi.
" oh yaar banda apne aaney ki khabar to kerta hai." garamjoshi se mustafa ki taraf bharte huwe murtaza ne kaha.
" takkey tum pehle hi hoshiyar ho jao?" mustafa ne ajeeb lehjey men kaha to murtaza khtak k ruk gaya.
" kia matlab?"
" men tujhe bhai samajhta tha kameene .. tujhe sharam nahi aati murtaza? ik khoon hai hamara.. ussi ka lihaz ker leta!" ik dam hi mustafa phatt para.
" kia keh ra haitu? hosh men hai?" 
" saanp jaisi fitrat hai teri... ghatya hai tu! mera bus nahi chal ra tujhe jaan se maar doon men!" mustafa ka ghusa kisi torr qabu men na  aa raha tha!
"mustafa soch k bol.. huwa kia hai.. mujhe bata.. aur yeh kareem yahan kia ker rha tha?" murtaza ko yaqeen tha k koi ghalat fehmi hoi hai.. per kia?
" mujhe to zabaan pe wo baat laatey huwe bhi sharam aa rahi hai... tu ne zameen k hisaab men garbar ki.. chal maan lia, tujhe lalach ho g... " mustafa ki baatun k doraan murtaza k chehre ka rang badalta ja raha tha..
" per tu suraiyaa pe buri nazar rakhta hai?? bhabi hai teri woh... ghatyaaa... zaleeel .." Yeh sunne ki dair thi k murtaza ka sabarka paimana labraiz ho gaya.. agey bhar k mustafa k mun pe ik mukka jharte huwe wo cheekha.." bakwas band ker.!! men tera lihaz ker raha tha .. aur tujhe koi lihaz hi nahi .. mera na sahi apni biwi ka to lihaz ker.. beghairat hai tu kameene! " 
aur phir tamasha itna bharha k poorey gaoon men baat phail gai...
Dono k ghar waloon ne bohat samjhane bujhane ki koshish likin ow dono to ik dosre ki shakal dekhne k bhi rawadaar na they.. Ab un k Dada ji zinda na they k kamre men bulwa k un ki sulah kerwa dete.. acha tha k woh zinda nahi they, warna yeh sun k mar jatey!

Ik hafta yun hi guzra... mustafa ko lagta tha k us k seene men aag bharak rahi hai... us k sab yaar dost us ko beghairti ka tanaa dete they.. kareem ka kehna tha k us ki biwi ne apni ankhoon ko murtaza ko dekha ha choti bibi k kamre tak jatey huwe.. Suraiya ki lakhoon qasmoon pe bhi mustafa ko yaqeen na aya , na murtaza ki bachpan ki dosti us ka ehtamad bhahal ker sakki!
inteqam ki aag thi jo us n andar bharak rahi thi.

Bilakhir ik din us ne murtaza se baat kerne ka faisla ker lia... sham k waqt murtaza mughabiyun ka shikar kerne jheel pe aya tha.. abhi us ne nishana bandha hi tha k us ko apne peche qadmoon ki awaz ai. us ne peeche murr k dekha to mustafa khara tha.. us ne baat kiye baghair samne dekh k goli chala di.
Goli ki awaz sun k saari murghabiyaan shor kerti urr gaen.
jab murtaza ko ehsas huwa k mustafa abhi tak wahan mojood hai to wo wahaan se jaane laga. 
" tujhse baat kerni hai mujhe!" mustafa ne awaaz lagai.
"dafa ho ja yahan se mustafa.. mere samne na aa!"
" kiun? gunna kia hai to eitaraf bhi ker na"
mustafa ki baat sun ker murtaza ko laga jaise ghusse ka ik atishfishan hai jo us k andar ubal raha hai.. aur bahir nikalne ko betaab hai..
" ab agar tu mere samne aaya mustafa to khuda ki qasam men tujhe golli maar doon g!" us ne belt se pistol nikala aur us ka rukh mustafa ki taraf kerte huwe kaha,
" baad men kiun? abhi yeh faisla hona chae na!" mustafa us ki taraf bharte huwe bola!
"ya tu rahe ga ya men.. " musatafa k pass koi hathyar nahi tha.. woh ne aagey barh k murtaza k hath se pistol cheene ki koshish ki... issi larai issi kashmakash men , jab k pistol murtaza k hath men hi tha, goli chal gai..murtaza ko yun mehsus huwa jaise kissi ne jalta huwa angara us ki taang pe rakh dia hai.
pistol pe us ki giraft bhi dheeli perh gai!
Neeche girte huwe us ne mustafa ko dekha jo us ki taang aur us se behte betahasha khoon ko dekh raha tha , ankhien band hone se pehle us ne apne bohat qareeb ik aur goli ki awaz sunni ..aur mustafa k safaid kurte ko samne se laho rang hotey dekha!

Najane wo kitni dair baad hosh men aaya tha aur kahan tha..ussey yaad nhi aa raha tha k kia huwa hai...us ne uthne ki koshish ki magar us ka sar bharri ho raha tha aur taangun men jaan nahi thi jaise.. kuch dair baad woh phir soo gaya...

"Mustafa ko qatal ker dia hai!" yeh khabar jungle ki aag ki tarhan poore gaoon men phail gai aur haveli men to kohram mach gaya khas torr pe jab pata chala k qatil koi aur nahi us ka apna chachazad bhai, us ka dost Murtaza hai...
kissi ko yaqeen na aata tha... aur phir tarhan tarhan ki baatien..
murtaza aur mustafa ki larai, us ki waja.. aur najanae kia kia... batien kerne waloon ne moqa ka khoob faida uthaya.. 
Haveli wale gham se nidhal se.. samajh na aati k baithey bithye yeh kiss kinazar kha gai un k ghar ko...

Har kissi ko itna yaqeen tha k qatl Murtaza ne kia hai , kissi ne koi tafteesh bhi na kerwai... un k khandaan ka naam kachaiyun ne rulley , un men se kissi ko manzor na tha.. murtaza k baap bhai to aankh uthane k qabil na they.. un hun ne mustafa k abba k ghar jak un k paoon men apni pagri rakh di k jo app saza dien gey wo manzoor hai humien...
Mustafa k barey bhai ne kaha k hum mustafa k baad kissi ko nahi khona chate ..ap apni zameenon ka 60% diyat men dien aur gaoon chor dien.. Noor haveli seap ka koi taluqna ho ga, bashart ye k hum koi taluq rakhien...

Taqreeban ik maheena laga in mamlaat ko nibtane men.. aur ik mah baad, wo gaoon chor k aa gaye.. aur us din k baad unhun ne kabhi gaoon ki taraf palatne ki  koshish nhi ki.. bus yeh maloom huwa k mustafa k ghar baita huwa hai, Moiz aur  surraiya ki shadi unhun ne Mustafa k barey bhai se ker di jin ki ik beti thi aur pehli biwi wafaat paa chuki thi..








Thursday, 23 May 2013

Teri meri Anaa 17

Recap:
 Ik lamhe men jab koi ap se ap ki shanakht, ap ka waqar, ap ka naam cheen le to insaan ko kia kerna chae... 18 kharab ki abaadi wali iss dunia men ik dam woh Moiz Azam se Nobody ho gaya tha.

Now read:
saari raat woh janey anjanae raastun pe phirta raha.. cigarette pe cigarette sulghatey huwe woh cigarette k sath sath jal raha tha... ankhoon men pani, khuda jane tapash thi, jalan thi ya sirf dukh tha... Chalte chalte woh thak gaya to ik bench pe baith gaya.. ghup andhere men dur jalti street light mahol ko pur-israr bana rahi thi. Us k ilawa koi nafs mojood nahi tha... itni khamooshi thi k us ko apne dil ki ik ik dharkan sunai de rahi thi.. us ko hairat ho rahi thi apne zabt aur hosle per.. adha ghantey k andar ander us ki poori zindagi ka matlab badal gaya aur woh ab tak apni aqal apna fehm sath liye bhatak raha tha... Us ka dil chaha wo zor zor se chilaye... sakoon se sooti dunia ko jagaye aur bataye k woh kitne karb men hai... us ka dil chaha k woh bachoon ki tarhan phoot phoot k rooye.... kissi se jhagra karey, aag laga dey, tabah ker dey sab kuch.. likin wo us bench per baitha raha... surkh ankhoon, , bikhrey baalun aur sulagte cigarette k sath.. mehr ba lab....

Us ko Mehr ka kahayal aney laga... wo kaise chorey ga ussey, kaisey bhooley ga... Abhi se pehle us ko mehr se mohabbat thi shyd likin ab us ko kho dene k ehsas ne achanak us k jazbey ki shidaat men izafa ker dia tha.. us ko mehr se ishq ho gaya tha,.. Jo guzar gaya us pe kissi ka ikhtiyar nhi likin Mehr ko woh nahi chor sakta tha,.. ussey mehr chaye thi....  har haal men.. us ko laga k woh waqai mar jaye ga mehr k baghair.. 

Ik dam perfect plan yun ulat palat ho gaya tha k Moiz ko samajh nahi aa rahi thi k iss uljhi hoi dorr ka sira ab kahan se pakrey..
Suraaj taluh huwa to wo uth k chalne laga.. is dafa us ko maloom tha k woh kahan ja raha hai... Us ka huliya kissi tabah shuda admi se kam nahi tha, likin iss waqt Moiz ko perwa nahi thi. . woh jo hamesha apne kaprun ka bohat khayal rakhta tha, aj masley huwe kaprun men, har cheez se beniaz challa ja raha tha..
__________________________________________________________

Murtaza Sahab office men dakhil huwe to 9:30 ho rahe they. Ajj Mehru ki Van nahi aai thi aur us ko jaldi university jana tha, us ko drop kertey huwe wo late ho gaye they. gaari se utarte huwe, Mehru ne jaldi se ko galley laga k kaha : thank you Baba, you are the best." to us k andaaz pe woh hans diye." jaldi jaen Mehr Murtaza, you are getting late."
Ass pass se guzarte huwe har bande k salam ka khushdilli se jawab dete huwe woh apne room ki taraf ja rahe they.
 Un ko dekh  un ki secretary  khari hoi :" Assalam o alikum sir, someone is waiting for you sir."
Unhun ne apni wrist watch dekhi.: " so early? did he say what his name is?"
"No sir," secretary ne kaha." He says its personal and urgent."
Murtaza shab ko thori hairat hoi.." ok , i will see him"

Secretary k pass se office anney tak un k wehm o guman men bhi nahi tha k woh Moiz se milne waley hain.. wo bhi is huliye mien... iss buri halaat men..
woh un k office k bahir rakhey sofey pe baitha tha... Surkh ankhien ratjagey aur us ki zehni halaat ka pata dey rahhi theen.
:Moiz?" unhun ne us ko pukara jo samney painting pe nazrien jamaye apni soch men gum tha..un ki awaz sun k chonk gaya.
"kheriyat to hai? andar aoo.."
woh chup chaap uth k un k peeche office men aa gaya. darwaza band ker k unhun ne intercom utha k secretary ko hidayat di.. woh filhal kissi se nahi mil saktey they. 


_________________________________________________

Ik dam hi us office men us sakhs k samne kharey ho k Moiz ko nafrat mehsus hoi.. behad, behisab nafrat.. un k chehre se, un ki zindagi se, un k hone se... us ka dil chaha k us ofice men parri ik ik cheez ko apney hath se tabah kare, torr dey, phaar de, jala dey...  us ko rona ayaa... apni bebasii pe.. aur ghussa aya apni taleem pe .. kaash wo koi ganwar hota jo ye sab ker guzarta ..na sochta kuch bhi, kissi ka bhi.. anjaam ki perwa na kerta.. bus badla leta...
___________________________________________________

Moiz k chehrey ki rangaat jiss taizi se badli thi, Murtaza sahab jaan gaye they k Jo bhi ha , woh bohat bheyanak hai... un ko samajh nahi aai k un ko Moiz se poochna chaye ya intezar kerna chae k woh khud kuch boley...

boaht dair intezzar k baad jab unhien laga k Moiz kuch nahi kahe ga to unhun ne narmi se us ka naam pukara: " Moiz!"
Aur aain ussi waqt Moiz un ki table pe dono hath rakh k thora agey ho k,laal angara ankhoon aur  zehreele lehjey men bola: " why did you kill my father?"

Murtaza sahab ko laga asmaan un k sar pe aa gira hai !!